سیاچن کے برف زار میں عرصہ پورا کرلینے پر بالا ہیڈ کوارٹر کی جانب سے یونٹوں کو اگلے سٹیشن کے لیے تین نام تجویز کرنے کی عیاشی مرحمت فرمائی جاتی ہے۔ عباسیہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ ہمارا پہلا انتخاب ہی منظور ہوگیا۔ تب ڈھنڈیا یہ پڑی کہ پہلی چوائس میں لاہور، گوجرانوالہ چھوڑ کر سیالکوٹ کا نام کِس شکرے نے دیا تھا۔ حاسدین کا کہنا ہے کہ یونٹ سی او کرنل گوندل کی باہمی مشاورت کے بغیر کی گئی اس انفرادی کارروائی کے پیچھے ان کا کوئی ذاتی مفاد پنہاں تھا۔ واللہ و کرنل گوندل اعلم، ہم نوجوانوں کی یونٹ ٹو آئی سی نے یہ کہہ کر ہمت بندھائی کہ سیالکوٹ کو فوج کا سسرال کہتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آپریشنل ایریا کی سہل پسند علتوں سے متاثر ہوئے بے ہدایتے لفٹینوں اور کپتانوں کو کنٹونمنٹ لائف کی فوجی ضابطوں سے بندھی روزمرہ کی روٹین اور ملٹری ایٹی کیٹس سے مرصع میس لائف عین سیدھا کردے گی۔
صاحبو ہمالیہ کی ترائی سے جموں کشمیر کے پہلو سے لگتے پنجاب کو پلٹتے عباسیہ کے ٹرکوں کے قافلے کو چوتھا روز تھا جب سوہنی کے ’کنڈے اُتے محرماں وے میں تاں کدوں دی کھڑی‘ والے چناب سے اِدھر وزیرآباد بائی پاس پر ہم نے جی ٹی روڈ کو چھوڑا اور چاقو چھریوں والے شہر کی تنگ گلیوں سے کاندھا رگڑتے گزرے۔ مولانا ظفر علیخان کے مقبرے سے گزر جب ہمارا منہ کچھ سیدھا ہوا تو سیالکوٹ روڈ کے اطراف ہر میل سوا میل کے دائرے میں کھڑی چمڑا فیکٹریوں کی نہ ختم ہونے والی بدبودار آلائش ہمارے نتھنوں اور دماغ سے ہم آہنگ سی ہوگئی۔ ایک لمبے سفر کی تکان پر اس تازہ آفت کو ہم نے یہ کہہ کر سہار لیا کہ کچھ ہی گھنٹوں کے فاصلے پر ایک فوجی چھاؤنی میں ہمارے شایانِ شایان استقبال کی تیاریاں اب تو اپنے اختتامی مراحل میں ہوں گی۔ اصل بم تو تب گرا جب سمبڑیال ڈرائی پورٹ سے آگے ایک چھوٹا قصبہ اگوکی کے نام کا آیا تو فوجی کارروان کا سٹیئرنگ وھیل بھی گھوم گیا۔ فورس کمانڈ ناردرن ایریاز کے محاذ سے گری پلٹن سیالکوٹ پہنچنے سے پہلے جبکہ دو چارہاتھ لبِ بام رہ گیا تھا اگوکی کی کھجور میں اٹک گئی تھی۔
صاحبو کونسا سیالکوٹ، کونسی کنٹونمنٹ لائف، کونسا میس مینرزم، اگوکی سیالکوٹ روڈ پر ایک غیر معروف متوسط قصبہ تھا۔ چھوٹا سا ایک ریلوے سٹیشن اور نیشنل بنک کی اکلوتی برانچ جس میں سرمایہ اس دن آتا تھا جب عباسیہ کے جوانوں کی تنخواہ آتی تھی جسے ہم ایک حوالدار اور تین سپاہیوں کی گارڈ کے پہرے اور صندوقچی کے تالے پر لگی لاکھ کی مہر کی حفاظت میں لے کر آتے تھے۔ اس دن ہم اور بنک مینیجر بالترتیب یونٹ اور گھر سے آیت الکرسی کا ورد کرتے نکلتے۔ اوراس سب کے بیچ میں ایک اکیلی توپخانے کی یونٹ جس کے دفتر، افسروں جوانوں کی رہائش، فیملی کواٹرز، بی او کیو اور افسر میس سب کچھ یونٹ کے اندر تھا اور یونٹ اگوکی ماڈل ٹاؤن کے ایک کونے میں خاردار تاروں کے حصار کے اندر تھی۔ اس کچھار میں ایک لیفٹیننٹ کرنل کے زیرِ انتظام عباسیہ تھی اور میس لائف کے نام پر عباسیہ کے افسروں کا گلدستہ جو بھینی بھینی خوشبو میں اپنے ہونے کا پتہ دیتا تھا۔
خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گلِ کوزہ، خود رندِ سبوکش
صاحبو ہر اک مکاں کو مکیں سے شرف ہوتا ہے۔ سیالکوٹ چھاؤنی کی روشنیوں سے پرے اگوکی کے ویرانے کو عباسیہ کے لاجواب افسروں اور جوانوں نے اپنی سکونت کا جو شرف بخشا تو چار چاند لگا دیئے۔ اگوکی کی کہانی انہی روشن یادوں کی داستان ہے۔
گر قبول افتد زہے عزوشرف