پاک فضائیہ کا اکلوتا نشانِ حیدر

بچپن کا ہیرو، سدا بہار شہید

ہم اس دور میں پل بڑھ کر جوان ہوئے جب ہم سے پوچھا جاتا کہ بڑے ہوکر کیا بنو گے، توسب کا ایک ہی جواب ہوتا تھا، پائلٹ۔ یہ کہتے ہوئے ہم سب کے دل و دماغ پر ایک ہی شبیہہ ہوتی تھی۔ پاک فضائیہ کے نوخیز، کم عمر پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید۔ صاحبو، ہماری پوری نسل ایک بہت محبوب، طلسماتی شہرت کے حامل راشد منہاس سے انتہائی شدت سے متاثر ہوتے پروان چڑھی ہے۔ راشد ہم سب کا مشترکہ ہیرو ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج میں بہادری کے سب سے بڑے اعزاز نشانِ حیدر سے ہماری پہلے پہل شناسائی لڑکپن کے دنوں کی ایک یاد ہے۔ 80 کی دہائی میں پی ٹی وی پر پہلے پہل چلا نشانِ حیدر کا پرومو آج بھی ایسے یاد ہے جیسے ابھی ابھی دیکھا ہو۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں شہیدوں کے لہو کی لالی سے لکھا ’نشانِ حیدر‘۔ کچھ گرافک ایفیکٹس، جسقدر کہ اسوقت کی ویڈیوگرافی اجازت دیتی تھی، ایک شبیہ سے منعکس ہوتے ان گنت عکس اور اس سب کے جلو میں سبز رنگ کی بہارلیے اوپر سے اترتا چمکتا دمکتا، محاذ پر عدو سے چھینے گئے گن میٹل سے ڈھلا روشن ستارہ۔ پس منظر میں پھٹتے روشنی کے گولے اور پھر قطار اندر قطار دائیں سے ابھرتی ملکوتی شبیہیں اور بائیں سے نمودار ہوتے انکے نام۔ جیسے کسی نے الفاظ کو مجسم تصویر کردیا ہو


میرے خاک وخوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلۂ شہید کیا ہے تب و تابِ جاودانہ


میں پاکستان سٹیل کیڈٹ کالج میں آٹھویں جماعت میں تھا۔ یہ پرومو دیکھ کر ایک جوان ہوتے کچے دل و دماغ پر ایک دبدبہ سا بیٹھ گیا تھا۔ کیا لوگ تھے کہ مرنے سے بھی نہیں ڈرے، جس سے کہ سب ڈرتے ہیں۔ اور کیا دلیری کے جوہر دکھائے کہ بہادری کا سب سے بڑا اعزاز اپنے نام کیا، سب سے بڑا اعزاز! نشانِ حیدر۔ تب یہ پہلی بار تھا کہ ان کے بارے میں جو ہم جیسے گوشت پوست کے انسان تھے مزید جاننے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ تصویریں تو ایک عرصے سے دیکھتے آرہے تھے۔ سبز ربن اور چمکتے ستارے والا بہادری کا میڈل، نشانِ حیدر اور خاکی رنگوں میں رنگی آٹھ ملکوتی شبیہیں، جن میں سے سات پاک آرمی کے جوان اور ایک پاک فضائیہ سے، سب سے کم سِن جوانی کی دہلیز پر قدم دھرتے راشد منہاس۔
اور پھر ہم نے پاکستان ٹیلی وژن پر پائلٹ آفیسر راشد منہاس پر لانگ پلے دیکھ لیا۔ نیرکمال کا راشد کی والدہ کا لازوال کردار اور ایور گریس فل مرینہ خان کی پہلے پہل کی جھلک آج تک یاد ہیں۔ اور پھر راشد کی پرواز کے آخری لمحات کو فلماتا دل پر انمٹ نقش چھوڑتا وہ منظر۔ شاہزاد خلیل نے راشد منہاس تصوراتی یادوں کو تصویری پردے پر امر کردیا۔

پاکستان ٹیلی ویژن پر پہلے پہل نشر ہوئے نشانِ حیدر سیریز کے ڈراموں کا پرومو
راشد کی پرواز کے آخری لمحات ۔ پاکستان ٹیلی ویژن کا ٹیلی پلے راشد منہاس شہید نشانِ حیدر

اگر آپ شارع فیصل پر ڈرگ روڈ سے کارساز کی طرف سفر کریں تو جہاں اب فضائیہ میوزیم بن گیا ہے وہاں سے تھوڑا پہلے جہاں پی اے ایف بیس فیصل اور کارسازکی حدِ فاصل ہے روڈ کی مخالف سمت گئے وقتوں کا ایک F-6 طیارہ اس پوز میں ایستادہ ہے جیسے کہ نیچی بہت نیچی اڑان بھر رہا ہو۔ آج سے بہت برس قبل جبکہ ابھی میوزیم نہیں بنا تھا اور کارساز کی ویرانی میں آتے جاتے کار سواروں کو عروسی جوڑا پہنے ایک دلہن نظر آجایا کرتی تھی، نمبر 5519 کی شناخت اوڑھے یہ طیارہ تب بھی یہیں تھا اور اس کے ساتھ ہی ایک ذیلی سڑک ریل کی پٹڑی کے نیچے سے گزرتی بیس فیصل کے ہوائی اڈے کے رن وے کو جاتی تھی۔ ان دنوں ریل کی پٹڑی کے پار کیکر کی کچھ ٹنڈ منڈ جھاڑیاں تھیں اور ویرانہ تھا۔ ہمیں یہ اس لیےبھی یاد ہےکہ سٹیل ٹاؤن سے صدر آتے جاتے کے ٹی سی (کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن) کی نارنجی بس کی کھڑکی سے طیارہ یوں لگتا کہ جیسے بالکل سامنے ہو، بس ہاتھ بڑھاؤ اور چھُولو۔ اور جب کینٹ سٹیشن سےفیصل آباد کی نیت کرتی سُپر ایکسپریس چلتی تو ڈرگ روڈ سے پہلے یہ طیارہ ریل گاڑی کی کھڑکی سے بھی نظر پڑتا، بہت نزدیک، یوں کہ جیسے ہاتھ بڑھاؤ اور چھُولو۔
ہمارے پڑھنے والوں کو شاید یہ ذکر اور اس سے جڑی سنسنی عجیب لگے مگر صاحبو، اپنے بچپن اور لڑکپن میں کسی بھی جنگی طیارے سے ہمارا یہ نزدیک ترین فاصلہ تھا۔ شارعِ فیصل اور ریل کی پٹڑی کے درمیانی ویرانے میں جنگلی کیکروں سے گھرے نیچی پرواز بھرتے F-6 کو آتے جاتے ہم نے جب جب دیکھا ہمیں اس پر راشد منہاس کے طیارے کا گمان ہوا اور ہم نے اچک کر کاک پٹ میں اپنے محبوب پائلٹ کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کی (حالانکہ راشد کا جہاز ایک مختلف T-33 تربیتی طیارہ تھا، مگر ہم بھی کیا کرتے شاہزاد خلیل کے فلمائے گئے مناظر نے دل پر نقش ہی اسقدر گہرا چھوڑا تھا)۔ شاید ہمارے دل کے نہاں خانے میں ٹھٹھہ سے آگے پاکستان انڈیا کے بارڈر کی قربت میں کہیں ان زمینوں کی یاترا کی خواہش تھی جہاں راشد نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔

شارع فیصل پر کارساز کے نزدیک پاک فضائیہ کے F6 طیارے کی یادگار

یہاں سے ہم مزید ماضی کی اور پلٹیں گے، اپنے بچپن کےزمانے سے لگ بھگ ایک دہائی پیچھے۔ 1971 میں بریگیڈیئر عبدالرحمان صدیقی ڈائریکٹر انٹرسروسز پبلک ریلیشنز اور صدرِ پاکستان کےذرائع ابلاغ کے مشیر تھے۔ وہ اپنی کتاب East Pakistan: The Endgame میں 20 اگست 1971 کو پشاور میں ہوئے ایک ظہرانے کا ذکر کرتےہیں۔ پاک فضائیہ کےکمانڈر انچیف ایئر مارشل عبدالرحیم خان صدرِ پاکستان آغا محمد یحییٰ خان کے میزبان تھے۔ ایئر مارشل نے صدر کو دن کے پچھلے پہر مسرور بیس پر پیش آئے ایک ہائی جیکنگ کے واقعے اور ہندوستانی سرحد کے نزدیک شاہ بندر کے علاقے میں فضائیہ کے تربیتی طیارے کے حادثے کی خبر دی، اور جسقدر محدود حقائق دستیاب تھے ان کی روشنی میں جہاز کے پائلٹ کے لیے ایک نسبتاً کمتر اعزاز کی سفارش کی۔ بریگیڈیئر صدیقی بتاتے ہیں کہ اس پر صدر یحییٰ خان بےساختہ بولے، ’ستارۂ جرات ہی کیوں، لڑکا بہادری کے سب سے اعلیٰ اعزاز نشانِ حیدر کا مستحق ہے‘۔ صاحبو شہید کا حقیقی رتبہ اور اجر تو اللہ کے ہاں ہے مگر وہ بے نیاز ہے، دنیا میں بھی جسے چاہے عزت کی بلندیاں عطا کرتا ہے۔ راشد منہاس نے تادمِ تحریر اکلوتے پائلٹ اور سب سے کم عمر نشانِ حیدر کے رتبے پر فائز ہو کر بہت شہرت پائی اور ایک نہیں بلکہ کئی نسلوں کے نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ٹھہرے۔
مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اوپر بیان کی گئی گفتگو کے چند دن بعد جب 29 اگست کو صدرِ پاکستان نے پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید کے لیے باضابطہ طور پر نشانِ حیدر کے اعزاز کا اعلان کیا تو طیارے کے حادثے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دئیے جانے والے انکوائری بورڈ کو معطل کردیا گیا۔ بعد ازاں یہ انکوائری جسکی قیادت گروپ کیپٹن سیسل چوہدری مرحوم کررہے تھے کبھی پایۂ تکمیل کو نہ پہنچی اور نو دن کے مختصر عرصے پر محیط اسکی تفصیلات کو جائے حادثہ سے اکٹھے کیے جانے والے شواہد کے ساتھ داخلِ دفتر کردیا گیا۔ فضائیہ کے اکلوتے نشانِ حیدر کے تباہ شدہ T-33 طیارے کا ملبہ بہت عرصے تک مسرور بیس کی زنگ آلود عدم توجہی میں گلنے سڑنے کے بعد انجامِ کار کباڑ میں فروخت کردیا گیا۔
بیس اگست 1971 کی کچھ گدلی کچھ روشن صبح تھی جب گیارہ بج کر اٹھائیس منٹ پر پی اے ایف بیس مسرور کے ایئرٹریفک کنٹرول ٹاور نے راشد منہاس کی آواز سُنی ’بلیوبرڈ 166 اِز ہائی جیکڈ‘۔ اس کے کچھ ہی لمحوں بعد جہاز رن وے ستائیس سے اڑان بھر چکا تھا۔ گیارہ بج کر تیس منٹ پر طیارے نے معمول کی ترتیب سے ہٹ کر بائیں کو رُخ کیا اور پھر کافی نیچی پرواز کرتے ہوئے نظروں اور راڈار دونوں سے اوجھل ہوگیا۔ ایئر ٹریفک کنٹرولر کو گھبراہٹ کے عالم میں کی گئی دو مزید کالز موصول ہوئیں ’166 اِز ہائی جیکڈ‘۔ یہ منہاس کی آخری آواز تھی جو سُنی گئی۔ جہاز کے نظروں اور راڈار سے اوجھل ہونے اور ہندوستانی سرحد سے صرف 32 سمندری میل کے فاصلے پر دریائے سندھ کے دہانے پر اس کا تباہ شدہ ملبہ ملنے کے درمیان کیا ہوا یہ ہم نہیں جانتے کہ اس کا کوئی صوتی یا بصری ریکارڈ موجود نہیں۔ جہاں تک تعلق ہے پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید کے فضائی حادثے کی انکوائری کاتو وہ سربمہر فائلوں میں بند اب ایک سرکاری راز ہے۔ ہم تک یہ معلومات بذریعہ واہیات ٹولی والے رحمان ارشد کے ذریعے پہنچیں جو ان دنوں پاک فضائیہ میں ونگ کمانڈر کی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔

پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید، نشانِ حیدر
بیس مسرور 1971 ۔ راشد منہاس دوسری قطار میں بائیں سے دوسرے نمبر پر۔ فیس بُک سے لی گئی یہ تصویر عظمیٰ عادل کی عنایت ہے

بلیو برڈ 166

کالا پل کا فوجی قبرستان اور درگاہ پیر الٰہی بخش مینڈھرو

شارع فیصل سے اگر ایف ٹی سی فلائی اوور پکڑیں اور مین کورنگی روڈ پر چلیں تو ہمارے بائیں ہاتھ کراچی کا گورا قبرستان چلتا ہے۔ ایک مستطیل شکل میں شمالاً جنوباً پھیلے قبرستان کی جنوب مغربی سمت قدِ آدم کی گئی حد بندی میں غیرمتوازی ضلعوں والی ایک چھوٹی مستطیل ہے (معاف کیجیے گا، انگریزی ترکیب ٹریپزائیڈ کا ہمیں اردو میں یہی مترادف ملا)۔ یہاں کی قبروں کے کتبوں پر صلیب کے نشان کی جگہ قرآنی آیات لے لیتی ہیں۔ یہ کراچی کے کالا پُل پر واقع آرمی گریویارڈ یعنی فوجی قبرستان ہے۔ یہیں ایک سمت کو ایک چھتری نما گنبد تلے پاکستان کے سابقہ گورنر جنرل غلام محمد ملک کا مدفن ہے تو دوسری طرف ایک سادہ گورِغریباں میں میرزا ابوالحسن اصفہانی سورہے ہیں۔ اگر آپ اس غیر متوازی ضلعوں والی مستطیل کا نسبتاً متوازی شمالی ضلع پکڑیں تو گورا قبرستان سے جدا کرتی دیوار کے ساتھ ہی ایک سادہ مگر پروقار مزار ہمارے محبوب نشانِ حیدر، پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید کا ہے۔ راشد کے کتبے پر قطعۂ تاریخِ وفات جگمگا رہا ہے۔


پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
مومن کا نشاں اور ہے منافق کا نشاں اور
راشد کی شہادت پہ ہے اقبال کا یہ قول
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور


کالا پل پر واقع فوجی قبرستان میں راشد منہاس شہید کا مدفن

کالا پُل کے فوجی قبرستان میں راشد کو آرام کرتے کتنے ہی مہ وسال گزر گئے۔ کتنی رتیں آئیں اور بیت گئیں۔ 80 کی دہائی میں عبد المجید منہاس، شہید کے والد ایک حادثے کے نتیجے میں اسی گورستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ اور بہت سال نہیں بیتے کہ بیگم رشیدہ منہاس نے اپنے بیٹے سے ایک لمبی جدائی کے بعد آخری سانس لی تو پاک فضائیہ کا چاق وچوبند دستہ پورے فوجی اعزاز کے ساتھ راشد منہاس کے مزار کی قربت میں ان کی والدہ کو لحد میں اتار آیا۔ بیگم منہاس جب حیات تھیں تو اکثر راشد سے آخری ملاقات کا ذکر کیا کرتیں۔ 31 جولائی کو جب راشد گھر آیا تو بہن بھائیوں کے لیے مٹھائی لےکر آیا کہ اب وہ بڑے جہاز کا پائلٹ بن گیا تھا۔ والدہ کو علم نہیں تھا کہ وداع ہوتے جولائی کی اس شام انہوں نے راشد منہاس کو آخری مرتبہ خدا کی حفاظت میں دیا تھا۔ ماں کے کہے خدا حافظ کی یزداں نے لاج رکھ لی۔ کتنے ہی مہ و سال گزرگئے اور کتنی رتیں آئیں اور بیت گئیں، ہمارے شہید کانام آج بھی زندہ جاوید ہے۔
بیگم رشیدہ منہاس نے تو 31 جولائی کو ہی بیٹے کو وداع کر دیا تھا۔ 20 اگست 1971 کی صبح بیس مسرور سے گیارہ بج کر تیس منٹ پر اُڑان بھرنے سے کچھ پہلے جاتے جاتے راشد نے اپنے کورس میٹ پائلٹ آفیسر طارق قریشی کے پاس رک کر ان کی کولڈ ڈرنک سے چند گھونٹ بھرے۔ وہ جیتے جاگتے راشد منہاس کو آخری مرتبہ دیکھ رہے تھے۔ اس گزرتے پل سے کچھ گھنٹوں کی دوری پر جہاز کا ملبہ ملنے تک کے درمیان کیا ہوا، راشد کے ہائی جیکنگ کی اطلاع دیتے وائرلیس پیغامات سے ہٹ کر ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ خاص طور سے اسوقت جب اس حادثے کی کی گئی واحد انکوائری کچھ اس ڈھنگ سے داخلِ دفتر ہے کہ تالے چابی تک کسی کی رسائی ممکن نہیں۔


کچھ عرصہ قبل ایئر فورس کے جانے پہچانے بلاگر ایئرکموڈور(ریٹائرڈ) قیصر طفیل نے راشد منہاس شہید پر ایک مضمون لکھا تھا۔ Bluebird -166 is Hijacked کے عنوان سے لکھے معلومات سے پُر اس مضمون میں انہوں نے سرکاری ریکارڈ میں موجود کچھ اہم ثبوت سامنے لاتے ہوئے ان کی روشنی میں راشد منہاس کی آخری پرواز میں پیش آنے والے واقعات کو ایک بہتر زاویے سے دوبارہ دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ کورٹ آف انکوائری کی داخلِ دفتر فائلوں سے پھسل کر گرے چند حقائق قیصر ہم تک لے کر آئے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں:

☐ 20 اگست کی صبح T-33 تربیتی طیارے پر یہ راشد منہاس کی دوسری سولو (تن تنہا) فلائیٹ تھی۔ گیارہ بج کر اٹھائیس منٹ پر جبکہ جہاز ٹیکسی کررہا تھا کنٹرول ٹاور کو راشد کی کال موصول ہوئی ’بلیوبرڈ 166 اِز ہائی جیکڈ‘
☐ گیارہ بج کر تیس منٹ پر طیارے نے رن وے سے ٹیک آف کرتے ہی بائیں کو رُخ کیا جو کہ معمول سے ہٹ کر تھا۔ کنٹرول ٹاور نے طیارے کو نچلی سطح پر آتے دیکھا یہاں تک کہ وہ نظروں اور راڈار دونوں سے اوجھل ہوگیا۔ راشد کی ہائی جیکنگ کی اطلاع دیتی دو مزید وائرلیس کالوں کے علاوہ جہاز سے اور کوئی رابطہ نہیں ہوا اور نہ ہی طیارہ راڈار پر آیا۔
☐ دن چڑھے شاہ بندر تھانے سے فون موصول ہوا کہ پاک بھارت سرحد کے پاس ایک طیارہ تباہ ہوگیا ہے اور یہ کہ عملے کا کوئی فرد زندہ نہیں بچا۔
☐ بیس مسرور سے بھیجا گیا سرچ اینڈ ریسکیو ہیلی کاپٹر دن ڈھلے جہاز کے ملبے کی خبر لایا اور ساتھ میں دو بے جان جسم بھی، ایک پائلٹ آفیسر راشد منہاس کا اور دوسرا فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کا جو بیس مسرور کے گراؤنڈ سیفٹی آفیسر تھے۔
☐ طیارے کا ملبہ دریائے سندھ کے دہانے پر ہندوستانی سرحد سے 32 سمندری میل کی دوری پر ملا۔ طیارہ دلدلی علاقے میں گر کر تباہ ہوا تھا اورکریش کے وقت کا اندازہ گیارہ بج کر تینتالیس منٹ لگایا گیا۔
☐ راشد کا جسم ایجیکشن سیٹ کے حفاظتی بند میں بندھا جہاز کے ملبے سے لگ بھگ سو گز آگے مِلا جبکہ نشست اور بندشوں سے آزاد مطیع الرحمان کا جسم کریش کی جگہ سے کافی ہٹ کر الگ تھلگ پڑا ملا۔
☐ تفتیش کاروں کو جس چیز نے حیران کیا وہ جہاز کی کینوپی (چھتری) تھی جس کے اوپر ایک واضح رگڑ کا نشان تھا جیسے کہ دھات کا کوئی ٹکڑا ٹکرایا ہو۔ اس سے ملتا جلتا ڈینٹ جہاز کی ٹیل پلین (دُم کی طرف والے) پروں پر تھا۔ یوں لگتا تھا کہ کینوپی ہوا کی رفتار سے اڑ کر ٹیل پلین سے جاٹکرائی ہو۔
☐ جہاز کے فلیپ ڈاؤن پوزیشن میں پائے گئے، جیسے کہ پائلٹ نے جہاز کو گرنے سے بچانے کے لیے لفٹ کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہو۔
☐ جہاز کے ملبے میں ایک اور حیران کن دریافت ایک نقلی پستول تھا۔

ان حقائق کی روشنی میں خالی جگہ پر کرنے کی کوشش کریں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جہاز کے ٹیکسی کرنے کے دوران ایسی جگہ جو کنٹرول ٹاور سے اوجھل تھی وہیں فلائیٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان نےجوکہ گراؤنڈ سیفٹی آفیسر کے فرائض انجام دے رہے تھے جہاز رکوا کر راشد کو یرغمال بنا لیا۔ ٹیکسی کرنے کے دوران طے شدہ ڈرل کے مطابق جہاز کی کینوپی (چھتری) کُھلی رکھی جاتی ہے۔ گمان غالب ہے کہ مطیع الرحمان نے پچھلی نشست پر زقند بھر کر راشد کو نقلی پستول کی زد پر رکھتے ہوئے ٹیک آف کرنے کا حکم دیا ہوگا۔ یہ ایک سولو مشن تھا اس لیے پچھلی ایجیکشن سیٹ تیار نہیں تھی، یعنی اس پر پیراشوٹ نہیں تھا۔ پیراشوٹ کی غیر موجودگی میں مطیع الرحمان سیٹ میں نیچے دھنس کر بیٹھنے کی وجہ سے بیرونی نظروں سے اوجھل رہا ہوگا۔ گمان غالب ہے کہ افراتفری سے ہوئے اس ٹیک آف میں مطیع الرحمان نے نشست پر حفاظتی بند نہیں باندھے، جسکا علم راشد کو بھی رہا ہوگا۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ راشد منہاس پر بنائے لانگ پلے میں کلوروفارم سنگھانے والی بات قرین قیاس نہیں، کہ قیصر طفیل کی دانست میں ایک غیرکارآمد ایجیکشن سیٹ پرایک غیر آرامدہ حالت میں بیٹھے مطیع الرحمان کو جہاز کو ٹیک آف کروانے کے لیے اگلی نشست پر ایک ہوشمند کارآمد پائلٹ چاہیے تھا۔
صاحبو جہاز کے اڑان بھرنے سے لے کر کریش ہونے تک کے تیرہ سے چودہ منٹ کے عرصے میں اور وہ بھی اس صورت میں کہ ہندوستان کی سرحد اسقدر نزدیک تھی جہاز کے پیچھے جانےاور دورانِ پرواز اسے جالینے کا سکوپ بہت محدود تھا۔ اس سارے عرصے میں جہاز ایک دفعہ بھی راڈار پر نہیں آیا۔ یہ فلائیٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کی فضائی مہارت کا ثبوت ہے کہ جہاز نے یہ ساری پرواز درختوں کی بلندی سے متوازی انتہائی نچلی سطح پر بھری۔ یہ ضرور ہے کہ پیچھے سے اڑائے گئے جہازوں اور ایئر ٹریفک کنٹرولر نے منہاس کو ایجیکٹ کرنے کی مسلسل کالز دیں مگر اس کا کوئی جواب نہ آیا۔ راشد نے عین ممکن ہے یہ کالز سنی ہوں۔ گمان غالب ہے کہ ہمارے پائلٹ کے علم میں تھا کہ پچھلی سیٹ پر مطیع الرحمان پیراشوٹ کے بغیر بیٹھا ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ اسے حفاظتی بند بھی باندھنے کی مہلت نہیں ملی۔ راشد نے جو راستہ اپنایا وہ غالباً کینوپی کھولنے کا لیور گھمانے کا تھا۔ برق رفتارہوا نے ادھ کھلی کینوپی کو دونوں پائلٹوں کے سروں سے چند انچ اوپر سے پیچھے اچھال دیا ہوگا اور ہوا حفاظتی بندشوں سےآزاد مطیع الرحمان کو اچھال لے گئی ہوگی۔ مگر اڑ کے پیچھے کو جاتی کینوپی جہازکے دم والے پروں (ٹیل پلین) سے جا ٹکرائی اور ایک انتہائی نیچی پرواز بھرتے جہاز کو ڈگمگا گئی۔ زمین پر جھکنے سے بچانے کے لیے راشد نے جہاز کو کوشش کی آخری حد تک اوپر کھینچا ہوگا اور نتیجتاً ایک عمودی زاویے پر بلند ہوتا جہاز سٹال ہوگیا ہوگا۔ راشد کے پاس وقت ختم ہوچکا تھا، فلیپ ڈاؤن بھی جہاز کو سٹال سے نہ نکال سکے اور جہاز ایک ہموار زاویے پر دلدلی زمین پر گرکر تباہ ہوگیا۔ جائے حادثہ کے پاس کے عینی شاہدین جن میں کچھ اپنے کھیل میں مگن بچے بھی تھے نے اس بات کی تصدیق کی کہ جہاز کی اڑان غیرمعمولی حد تک غیر ہموار تھی، پھرانہوں نے جہاز کو اوپر اٹھتے مگر فوراً ہی زمین کے متوازی ہوکر نیچے گرتے دیکھا۔
سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ راشد نے ایجیکٹ کیوں نہیں کیا۔ اس صورت میں کینوپی اُچھل کر ٹیل پلین کو ٹکرانے کے بجائے ایک عمودی دھکے سے اوپر کو جاتی اور ایجیکشن سیٹ کا پیراشوٹ کھُلنے پر ان کی جان بچ جاتی، جبکہ پیراشوٹ سے بے نیاز پچھلی سیٹ پر بیٹھے مطیع الرحمان کے لیے ایجیکشن بھی جان لیوا ثابت ہوتی۔ مگر اس صورت میں جہاز سے لازماً ہاتھ دھونا پڑتے۔ شاید راشد جہاز کو بچانا چاہتا تھا۔ شاید باہمی کشمکش کے ہیجان کو آئے ان آخری لمحات میں جبکہ وقت بہت محدود تھا راشد کی سمجھ میں جو آیا انہوں نے کیا، اور مادرِ وطن کی حفاظت کے فریضے کا حق ادا کرتے ہوئے خود نثار ہوگئے۔

قیصر طفیل کے فراہم کردہ حقائق میں سے ایک اور جو کام کی بات ہمارے علم میں آئی وہ یہ تھی کہ جہاز کا ملبہ بیس مسرور سے 130 درجے کے سمتی زاویے پر 64 ناٹیکل میل کی دوری پر دریافت ہوا تھا۔ ان ہوابازی اصطلاحات سے گھبرا کر ہم نے یہ معلومات اپنے جانے پہچانے واہیات ہوا باز گروپ کے ناکارہ پائلٹوں کے حوالے کیں۔ دو دن اور دو راتوں کی عرق ریزی کے بعد رحمان ارشد اور افراز نے کچھ دائروں میں الجھے پرکاری نقشے ہمارے متھے مارے۔


سادگی و پرکاری بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا


ہمارے تغافل کا فائدہ اٹھاتے جونیئر افسروں کی جرآت آزمائی پر ہمارے اندر کا سینیئر جوش میں آیا تو رحمان ارشد سے جو کام کی بات پتہ چلی تھی وہ یہ تھی کہ سجاول سے جو سڑک شاہ بندر کو جاتی ہے وہیں ڈیلٹا بناتے دریائے سندھ کی قربت میں داہنے ہاتھ کو اتریں تو ایک درگاہ حضرت پیر الٰہی بخش مینڈھرو کے نام کی آتی ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں قیصر طفیل کے فراہم کردہ زمینی نشان اشارہ کرتے ہیں۔
راشد منہاس کی جائے شہادت کا ہمارے علم کے مطابق کوئی زمینی نشان موجود نہیں تھا۔ یہ ساری میپ ریڈنگ ایکسرسائز اسی سبب سے تھی کہ فوجی اصطلاح میں جنرل ایریا کا جسقدر درستگی سے ممکن ہو تعین کیا جاسکے اور اگر پھر بھی نیت قائم اور حوصلہ جوان رہے تو بھوسے کے ڈھیرمیں سوئی تلاش کرنے کو نکلا جائے۔ اکتوبر کی اس سہ پہر گلشن حدید میں اپنے گھر میں بیٹھے نقشے پر ہم نے کوڈیارو شریف میں الٰہی بخش مینڈھرو کی درگاہ کو دیکھا۔ وہ جگہ جہاں دوہوابازوں نے اپنی تمام مہارت داؤ پر لگا کر ایک آخری جنگ لڑی تھی اور جہاں ہمارے محبوب نشانِ حیدر نے جامِ شہادت نوش کیا تھا ہمارے گھر سے محض ایک سو میل کی دوری پر تھی۔ راشد پر فلمائے لانگ پلے کے مناظر ایک دفعہ نظر میں گھوم گئے۔ یہیں کہیں جنگلی کیکروں کی جھاڑیوں سے اٹی وہ جگہ تھی جہاں کھیلتے بچوں نے ایک گھبراہٹ کے عالم میں نیچی پرواز بھرتے ایک جہاز کو اوپر کی سمت اٹھنے کی ناکام کوشش کرتے اور پھر زمین پر گر کر تباہ ہوتے دیکھا تھا۔ کیا پتہ ان میں سے کوئی بچہ اب جوان ہو اور ہم جو پیر مینڈھرو کی درگاہ کی نیت کرکےاردگرد کی زمینوں میں کچھ کھوجنے کو نکلیں تو اسی بچے سے ملاقات ہوجائے جو اپنے کھیل کے میدان میں کہیں ڈھکی چھپی وہ جگہ دکھا دے جہاں 20 اگست کو بیس مسرور سے اڑان بھرتے T-33 طیارے نے زمین کو آخری مرتبہ گلے لگایا تھا۔
صٓاحبو آس کے منتی دھاگوں میں کچھ اثر توہوتا ہوگا۔ شہرِیار سے بے دیار ہوتی سیمی کسی گُل ہوئی جاتی افسردہ سلگتی شام انہیں سخی ترت مراد کے مزار پر باندھے یا پھر سندھو ندی کے ڈیلتا بناتے لہریئے پانیوں کی قربت میں ایک محبوب گمشدہ مقام کی کھوج میں بھٹکتا مانی پیر مینڈھرو کی درگاہ پر ٹانگ آئے۔ آس کے منتی دھاگوں میں کچھ تو اثر تھا کہ ایک نقشے پھرولتے مانی کو گلشنِ حدید سے اٹھا گوٹھ احمد شاہ کے علی محمد شاہ کے پاس لے آئے۔ علی محمد شاہ جو اگست 1971 کی ایک دوپہر جب اس کے گاؤں کے پاس فضائیہ کا ایک جہاز گرا تو وہ اور دوسرے بچے جنگلی کیکر کی جھاڑیوں میں خرگوش پکڑنے نکلے ہوئے تھے۔

رحمان ارشد اور افراز کی عنایت، ہوابازی کے نقشے
شاہ بندر کے راستے پر
بحیرۂ عرب میں گرنے سے پہلے ڈیلٹا بناتے سندھو دریا کی قربت میں
کوڈیارو شریف کے ساتھ درگاہ الہٰی بخش مینڈھرو

ٹھٹھہ سے کچھ پہلے مکلی کے پاس جہاں سے سجاول کا راستہ نکلتا ہے ایک وے سائیڈ ہوٹل پر چائے اور تندوری پراٹھے کا ناشتہ کرنے کے بعد مشتاقانِ راشد منہاس کی جوڑی (ہمارے ساتھ ہمارا چھوٹا بھائی رضوان تھا) جب کوڈیارو شریف میں الٰہی بخش مینڈھرو کی درگاہ سے متصل مسجد میں ظہر کی نماز پڑھتی تھی تو امام مسجد ایک کرید کے عالم میں جو کہ شہروں سے دوری پر آباد بستیوں کے وسنیکوں کاخاصہ ہوتا ہے انہیں دیکھتا تھا۔ نماز کے بعد ہوئی ملاقات میں ہماری آمد کی غرض وغایت جان کر انہوں نے دو گائیڈ ہمارے ہمراہ کیے کہ کوڈیارو سے کوئی نو کلومیٹر دور ہمیں گوٹھ احمد شاہ لے جائیں اور علی محمد شاہ سے ملوا دیں۔ چند جھونپڑیوں پر مشتمل اس گاؤں کے افراد گول گنبد نما بھٹوں میں لکڑی دہکا کوئلہ بناکر زندگی گزارنے کا حیلہ کرتے تھے۔


لکڑی جل کوئلہ بھئی کوئلہ بھئی راکھ


دن چڑھے کی گرمی میں، ایک چیتھڑوں سے ڈھکی سائے سے عاری اوطاق کی قربت میں گاؤں کے باسیوں نے ہمیں لکڑی کے ایک کیبن میں جو کبھی کسی این جی او کا سکول رہا ہوگا ٹھہرایا۔ اور وہاں گوٹھ احمد شاہ کے علی محمد شاہ کی زبانی راشد اور ’بنگالی‘ کی کہانی کہی گئی۔
ہمارے محبوب لیکھک محمد حسن معراج جب وطن کی گلیوں پر نثار ہوجانے والے پاک فضائیہ کے اپنے دوستوں کو یاد کرتے ہیں تو لکھتے ہیں کہ ’ان کے جہاز تو زمین پر گرتے ہیں مگر گڑھا ہمارے دلوں میں پڑجاتاہے، گہرا عمیق، جس میں ہزار خوشیاں بھی ڈالو تو نہیں بھرتا‘۔ 20 اگست 1971 کی دوپہر ایسا ہی ایک گڑھا شاہ بندر کی قربت میں دریائے سندھ کی ریتلی زمینوں کے دل پر بھی پڑا تھا کہ راشد کا جہاز یہاں گرا تھا اور ایسا گہرا کہ کئی دہائیوں کے پاٹ بھی اسے بھر نہ سکے تھے۔ علی محمد شاہ ہمیں ان زمینوں پر لے آیاتھا جن کا دیدار کرنے ہم اس دوپہر کوڈیارو سے گوٹھ احمد شاہ بھیجے گئے تھے۔ علی کے مطابق ان رتوں میں جب یہ حادثہ ہوا تو یہ زمین دلدلی تھی اور جہاز گرنے سے یہاں ایک گہرا گڑھا بن گیا تھا۔ بعد کے سالوں میں کٹھن موسموں سے نالاں سمندرآہستہ آہستہ پس قدمی کرتا گیا تو خشک ہوتی زمین میں وہ گڑھا بھی ایک پائیدارنشان بنا کئی سالوں تک وہیں رہا۔ آنے والے دنوں میں پاک فضائیہ کے افسر ایک تواتر سے وہ مقام دیکھنے کو آئے اور علی محمد ان اجنبی زمینوں پر ان کا راہبر ٹھہرا۔ کچھ اس لیے بھی ہمارے میزبان کو وہ مقام اور کہانی انگلیوں اورزبان دونوں پر ازبر تھے۔

گوٹھ احمد شاہ میں کوئلے کی بھٹیاں
گوٹھ احمد شاہ کا داستان گو ۔ علی محمد شاہ
گوٹھ احمد شاہ کے لکڑی کے کیبن میں راشد کی کہانی سنتے ہوئے

باتوں باتوں میں چند قدموں کی دوری پر علی محمد ہمیں زمین کے اس قطعے پر لے آیا جسے ایک بچپن کی دوری پر ہم نے ٹیلیویژن سکرین پر دیکھا تھا۔ دھوئیں کے اڑتےمرغولوں کے سائے میں ایک گھڑی جس پر گیارہ بج کر تینتالیس منٹ کا وقت تھم گیا تھا، ایک ادھ جلا کچھ کچھ مانوس آئی ڈی کارڈ اور پھر اس فیڈ آؤٹ ہوتے منظر سے ابھرتی دوجہان کا درد سمیٹے نیر کمال کی خاموش بین کرتی آنکھیں۔ جھاڑیوں سے گھری اس خاردار زمین کو ہم نے بے اختیار کچھ باقیات کوئی اعزازی نشان ڈھونڈنے کو ٹٹولا۔ وہاں خدا کی سادہ زمین تھی اور کچھ نہیں تھا۔ سندھو اور سمندر کے سنگم کی اس سرزمین پر یہ قطعہ بہت مقدس تھا کہ یہ ارضِ وطن کی شہادتوں کا امین تھا۔ راشد کی گھڑی وہاں نہیں تھی مگر وقت تھم گیا تھا۔ وقت راشد کے لیے تھم گیا ہے کہ ہم بچپن کو پیچھے چھوڑ اب بڑھاپے کے دروازے پر دستک دینے کو کھڑے ہیں مگر راشد آج بھی ہم سب کے لیے وہی بیس برس کا نوخیز شہید ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ ہم اپنا وقت آنے پر مر جائیں گے مگر وہ زندہ ہے اور رہے گا، اپنے رب کے ہاں اپنے حصے کا رزق پائے گا۔
وہیں تھوڑا آگے ایک دوسرا قطعۂ زمین ہے جہاں علی محمد کے الفاظ میں ’بنگالی‘ کا جسم ملا تھا جو ملبے سے تھوڑا دور کچھ بہتر حالت میں تھا۔ بعدازاں راشد منہاس کا جسدِ خاکی بھی اسی قطعے پر لاکر رکھا گیا تھا جہاں سے اسی شام بیس ہیلی کاپٹر دونوں بے روح اجسام کو بیس مسرور لے گیا تھا۔ اس دوپہر سندھ کے ڈیلٹا بناتی زمینوں پر گوٹھ احمد شاہ کی قربت میں میں علی محمد کو ایک تجسس اور حیرانی کے عالم میں دیکھتا تھا۔ وہ راشد منہاس کو نام لے کر مخاطب کرتا تھا مگر اس حادثے کا شکار دوسرے پائلٹ کی شناخت صرف ایک لفظ تھا ’بنگالی‘۔ اور یہ صرف علی نہیں تھا۔ راشد منہاس سے جڑی اس کہانی کے دوسرے کردار مطیع الرحمان کو ہم سب اس سے زیادہ نہیں جانتے کہ وہ ایک غدار بنگالی تھا جو وطن کے راز پاک فضائیہ کے ایک جہاز کو اغواکرکے ہمارے دشمن بھارت کو بیچنا چاہتا تھا۔ ایڈیٹر ہلال نے بھی تو راشد کے قطعۂ تاریخ وفات پر اسے منافق کہہ کے پکارا تھا


پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
مومن کا نشاں اور منافق کا نشاں اور

گوگل ارتھ سے لی گئی علاقے کی تصویر۔ ہرے رنگ میں پِن نمبر3 گوٹھ احمد شاہ ہے۔ پِن نمبر 1 اور 2 وہ جگہ ہے جہاں طیارہ گر کر تباہ ہوا
گوگل ارتھ سے لی گئی علاقے کی تصویر۔ پن نمبر3 گوٹھ احمد شاہ میں لکڑی کا کیبن ہے۔ پنِ نمبر 1 وہ جگہ جہاں راشد کا طیارہ گر کر تباہ ہوا۔ پن نمبر 2 وہ جگہ جہاں مطیع الرحمان کی لاش ملی
وہ جگہ جہاں 20 اگست 1971 کی صبح راشد منہاس کا T33 طیارہ گر کر تباہ ہوا۔ نقشے کے کوآرڈینیٹس :  Latitude 24°12’41.82″N | Longitude 67°46’30.32″E
کریش سائٹ سے تھوڑا ہٹ کر وہ جگہ جہاں مطیع الرحمان کی لاش ملی تھی۔ بعد ازاں راشد کا بے جان جسم بھی طیارے سے نکال کر یہیں رکھا گیا تھا۔ فضائیہ کا ہیلی کاپٹر دونوں جسدِ خاکی لے کر اسی شام بیس مسرور لوٹ گیا تھا
راشد کی جائے شہادت کو نکلے رضوان اور کوڈیارو سے ہمارے سنگ چلے ساتھی

مطیع الرحمان کی کہانی

بیس مسرُور کی لاوارث قبر سے ڈھاکہ کے شہداء قبرستان تک

گذشتہ صدی کے آخری عشرے کے ابتدائی سالوں کا ذکر ہے ہم نویں جماعت کے طالبعلم تھے۔ پروفیسر وصی الحسن پاکستان سٹیل کیڈٹ کالج میں مطالعۂ پاکستان کے استاد تھے۔ نفیس طبیعت، شفیق استاد جن کی شخصیت میں چاشنی کے ڈھیر لگے تھے۔ کبھی موڈ میں ہوتے تو لیکچر شروع کرنے سے پہلے اپنے ٹریڈ مارک انداز میں کہا کرتے، صاحب آج آپ ہماری دعوت کیجیے۔ مطلب یہ ہوتا کہ طبیعت کو موزوں کرتا کوئی اچھا سا شعر سنائیے۔ اب یہ اور بات ہے کہ ایک یادگار صبح، ان کے اُس دن کے مخاطب و ممدوح کیڈٹ اسد (جسے ہم سب کرنل کہتے اور سمجھتے تھے) نے صدقِ دل اور پوری ارادتمندی کے ساتھ کھڑے ہو کر پروفیسر مذکور کی دعوت کچھ اس ڈھنگ سے کی تھی


شبِ برات کیا تحفہ میں تم کو بھیجوں
میری جان تم تو خود اک پٹاخہ ہو


خیر یہ ایک الگ قصہ ہے۔ تو صاحبو گذشتہ صدی کی آخری دہائی کے شروع کے سالوں میں مطالعۂ پاکستان پڑھاتے پروفیسر وصی اکثر کہا کرتے تھے کہ پیارے بچو، وسطِ ایشیا کی مسلم ریاستیں اگر آزاد ہوسکتی ہیں تو مشرقی اور مغربی پاکستان دوبارہ ایک کیوں نہیں ہوسکتے! ایک دن انہیں دوبارہ شیروشکرہونا ہے۔ اور ہم مطالعۂ پاکستان پڑھنے والے طلباء دل میں کہتے کہ ایک غدار بنگلہ دیش دوبارہ پاکستان سے کیسے مل سکتا ہے۔ سر وصی بھی کیسی عجیب وغریب باتیں کرتے ہیں۔
صاحبو آج کی نسل زیادہ جانکار ہے۔ وہ مطالعۂ پاکستان سے زیادہ سوشل میڈیا کی صارف ہے۔ آج کے پاکستانی کو پتہ ہے کہ غدار بنگالی ہمارے مشرقی بازو کے مظلوم بھائی تھے جنہوں نے لڑمر کر ہم سے آزادی حاصل کی تھی۔ گزری صدی کے پروفیسر وصی اور آج کی جانکار، روشن خیال نسل جو پاک بنگال دوستی اور بھائی چارے کی بات کرتی ہے تو سوال اُٹھتا ہے کہ ایک تلخ اور تکلیف دہ ماضی کی کوکھ سے جنمی آزادی کی جنگ کو دونوں ممالک کس حد تک سوئیکار کرنے کو تیار ہیں؟ فی الوقت کراچی کے ساحل کی قربت میں بیتی ایک ریتلی رات کو چلتے ہیں، مگر ہم اس سوال کی طرف دوبارہ پلٹ کر آئیں گے۔

رات کچھ کچھ بھیگ چلی تھی اور کچھ دیر سے پیدل چلتے ہمارے بوٹوں پر ایک ریتلی زمین کی دھول تھی اور ہونٹوں پر کراچی کے ساحِل کی نم ہوا کا نمکین ذائقہ۔ یہ پی اے ایف بیس مسرور تھی اور کراچی کی ساحلی پٹی کی قربت میں ایک جوبن پر آئی رات میں میرے ساتھ رحمان ارشد (المعروف راشد منہاس) اور چھوٹے شیرازی کی سنگت تھی۔ مجھے کینیڈا سے پاکستان پہنچے دوسرا روز تھا اور چکلالہ کے دنوں کے واہیات گروپ کے اتنے ہی واہیات یہ دونوں ہواباز رضاکارانہ طورپر بیس مسرور کی ایک معمول کی پرواز پر اپنا نمبر لگا پاک فضائیہ کا طیارہ اڑا کراچی آگئے تھے اور اب میری دسترس میں تھے۔ دوستی میں جبکہ وہ بے لوث ہو ایک جادوئی حس ہوتی ہے۔ وہ لاہور کا عرفان ہو یا چک لالہ کا ہواباز گروپ، ملنے کو ایک بہانہ کافی ہوتا ہے اور ایک دوسرے کی سنگت میں مقام، وقت اور کاروبارِ زندگی بے معنی ہوجاتے ہیں۔ چکلالہ سے پدھارے دونوں ہواباز جو رات کی رات مجھے دیکھنے کو آئے تھے اور صبح انہوں نے ایک دوسرے مشن پر پلٹ جانا تھا اس لمحۂ موجود میں ایک آلکس میں میرے ساتھ چلتے تھے۔ ہم کہ بیس مسرور کے ہی ایک ڈھابے نما ہوٹل کی کڑاہی اور دال فرائی سے سیر شکم تھے اور گولڈ لیف کے پاکستانی تمباکو کی لذت کشید کرتی سانس کھینچتے تھے تو ہمارے ارد گرد بیس کے رن وے سے اڑان بھرنے کی تیاری پکڑتے ’پرندوں‘ کے انجن کا شور تھا، سارے میں مٹی کے تیل کی بُو تھی اور ہمارے ہونٹوں پر کراچی کے ساحِل کی نم ہوا کا نمکین ذائقہ۔
بیس مسرور کی اس رات کی رات ملاقات میں بھی میں نے انہیں ایک کہانی کھوجنے پر لگا دیا تھا۔ چلتے چلتے رحمان ارشد بولا، ’سر بیس کا قبرستان نزدیک ہی ہےوہاں دیکھتے ہیں‘۔ مجھے علم تھا کہ ہمارا گوہرِ مقصود وہاں نہیں ہے مگر راستے میں پڑتے ایک قبرستان پر ٹھہرنے اور فاتحہ پڑھنے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں تھا۔ چند قطعوں اور ان سے بھی کم قبروں پر مشتمل ایک چاردیواری سے گھِرا یہ کم آبادی والا قبرستان عالمِ مسرور تھا۔ پی ایف بیس مسرور کا شہداء قبرستان۔ سب سے پہلی قطار میں ہی ہم خرم صمد شہید سے جا ٹکرائے۔ ونگ کمانڈر خرم صمد شہید پاکستان سٹیل کیڈٹ کالج میں ہمارے سینیئر تھے۔ تین جون 2014 کو معراج طیارے کی معمول کی تربیتی مشق کے دوران پیش آئےطیارے کے حادثے میں آپ شہید ہوگئے تھے۔ چند قطاریں چھوڑ کر پس منظر میں اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کو ابدی زندگی کی بشارت دیتی قرآنی آیت کےروشن ہوتے حروف کے جلو میں ایک اور کتبہ نظر پڑا۔ پینسٹھ کی ہوائی جنگ سے طلسماتی شہرت پانے والے ایم ایم عالم بیس مسرور کے شہداء قبرستان میں سورہے ہیں۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے بنگالی محمد محمود عالم، ستارۂ جرات دو بار،ستارۂ امتیاز(ملٹری)، نے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد پاکستان میں رہ جانے کو ترجیح دی۔ آپ پاک فضائیہ سے بطور ایئر کموڈور ریٹائر ہوئے اور 2013 میں وفات پائی۔

بیس مسرور کے شہداء قبرستان کا داخلی گیٹ
عالمِ مسرور میں ونگ کمانڈر خرم صمد شہید کی آخری آرامگاہ
پینسٹھ کی جنگ کے طلسماتی شہرت کے حامل ہواباز ایم ایم عالم، ستارۂ جرات (دوبار) کا مدفن

عالمِ مسرور میں اس رات ہماری کھوج 20 اگست 1971 کی دوپہر پاک فضائیہ کے T-33 تربیتی طیارے کو پیش آنے والے حادثے سے سے متعلق تھی مگر وہ نشان اگر وہاں ہوتا تو ملتا۔ اگر ہمارے پڑھنے والوں کا دھیان راشد منہاس شہید کی طرف جارہا ہے تووہ بیس مسرور میں سپردِ خاک نہیں ہیں۔ ہمارے پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ چند پیراگراف اوپر ہم کراچی کے کالا پل کے پاس فوجی قبرستان کی کرسچیئن گریویارڈ سے ملحق دیوار کے ساتھ راشد منہاس شہید کے مزار پر فاتحہ پڑھ آئے تھے۔ راشد کی شہادت پر فوجی رسالے ہلال کے اسوقت کے ایڈیٹر اکرام قمر نے قطعۂ تاریخِ وفات موزوں کیا تھا جو مزار کی چھتری تلے قبر کے سرہانے ایک سادہ کتبے پر درج ہے


پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضامیں
مومن کا نشاں اورمنافق کا نشاں اور


ہم اس رات مسرور بیس کے قبرستانوں میں نقلِ کتبہ کتبہ باشد ’منافق کا نشاں‘ ڈھونڈ رہے تھے۔ راشد کی دوسری سولو فلائٹ کے زبردستی کے ہمسفر فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان۔ وہی جسے گوٹھ احمد شاہ کا علی محمد بنگالی کہہ کے بلاتا تھا۔ 20 اگست 1971 کی شام کوڈیارو شریف کے پاس کی زمینوں سے اڑا ہیلی کاپٹر بیس مسرور پر دو میتیں لےکر آیا تھا۔ راشد کی بلیو برڈ از ہائی جیکڈ کی کال کے بعد ڈھنڈیا پڑی تو یہ عقدہ کُھلا تھا کہ بیس کا گراؤنڈ سیفٹی افسر مطیع الرحمان اور اس کی فیملی غائب تھی۔ شام گئے مطیع کی لاش آئی تو بیس کے افسران کراچی میں بھارت کے قونصل خانے سے مسز مطیعُر اورکم سن بیٹیوں کو واپس لے آئے تاکہ افسر کی آخری رسومات میں شرکت کرسکیں۔ اگلے دن نمازِ جنازہ ادا کرکے فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کو پی اے ایف بیس مسرور میں دفنا دیا گیا۔ مشکوک حالات میں فرار کی کوشش کرنے والے ایک بنگالی افسر کو بیس کے فوجی قبرستان میں جہاں شہید دفن ہیں جگہ نہ ملی۔
عالمِ مسرور سے بیس کی مین روڈ شارع مسرور پر واپس آئیں تو مشرق کی سمت تھوڑا آگے جاکر برلبِ سڑک ایک اور نسبتاً بڑا قبرستان ہے جہاں کبھی یہاں موجود گاؤں کے مکین اور اب بیس کے سویلین عملے کے ملازمین سپردِ خاک کیے جاتے ہیں۔ یہیں ایک قطعۂ زمین مطیع الرحمان کی آخری آرامگاہ ٹھہرا اور یہیں دفن ہونے کے لگ بھگ تئیس سال بعد بنگلہ دیش سے اپنے شوہر کے ساتھ آئی ماہم مطیعُر خوندکر نے اپنے والد کی قبر پر حاضری دی۔ پی اے ایف بیس مسرور کے غیر فوجی قبرستان کے ایک ویران قطعے میں کسے پڑی تھی کہ ایک غدار کے مدفن پر پئے فاتحہ آئے، دوچار پھول چڑھائے یا پھر شمع ہی جلاتا جائے۔ مس خوندکر نے اس بیکسی کے مزار پر فاتحہ پڑھی تو وطن واپس پہنچ کر حکومت کو درخواست دی کہ آزادی کے ہیرو اس کے شہید والد کو ایک اجنبی بے مہر ملک کی لاوارث قبر سے واپس بنگلہ دیش لایا جائے۔ مگر ابھی دو ’برادر اسلامی ملکوں‘ کے جدائی کے زخم ہرے اور نفرت جوان تھی۔

نیلے مارکر میں بیس مسرور کا سویلین ملازمین کا قبرستان۔ لال مارکر سے شہداء قبرستان عالمِ مسرور کی نشاندہی کی گئی ہے
ماہم مطیعر خوندکر اپنے شوہر اور بیٹے کے ہمراہ بیس مسرور میں اپنے والد فلائیٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کی قبر پر

عزیز قارئین جسے ایڈیٹر ہلال نے منافق لکھا اور جسے ہم پاکستانی وطن فروش غدار کے نام سےجانتے ہیں، اس مطیع الرحمان کے متعلق ہماری معلومات ملکی سلامتی کے رازوں کی چوری اور ملک سے غداری تک محدود ہیں۔ فروری 1945 کو مشرقی بنگال کے ایک متوسط اور کثیرالعیال خاندان میں آنکھ کھولنے والا مطیع، ساتویں جماعت میں پی اے ایف سکول سرگودھا میں داخلہ ملنے پر مغربی پاکستان آگیا تھا۔ 1961 میں اس نے رسالپور اکیڈیمی میں پاکستان ایئر فورس کے چھتیسویں جی ڈی پی کورس میں شمولیت اختیار کی اور 1963 میں بطورپائلٹ آفیسر کمیشن حاصل کیا۔ اکیڈیمی مطیع الرحمان کو ایک اچھے ایتھلیٹ، تیراک اور کھلاڑی کے حوالے سے جانتی ہے۔ سرگودھا اور پشاور میں پوسٹنگ کے بعد فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان ایئر فورس اکیڈیمی میں فلائنگ انسٹرکٹر تعینات ہوا۔ پاکستان ملٹری اکیڈیمی کے پلاٹون کمانڈر کی طرح یہ ایک کیرئیر پوسٹنگ سمجھی جاتی ہے۔

انیس سو اکہترکے پرآشوب سال مطیع الرحمان پی اے ایف بیس مسرور کے نمبر دو سکواڈرن میں جیٹ کنورژن ٹریننگ انسٹرکٹر تعینات تھا تا آنکہ مارچ کے مہینے میں جب مشرقی بازو میں آپریشن سرچ لائٹ کا عفریت بنگالیوں پرپل پڑا تو مغربی بازو میں جہاں بنگالی افسر غیر مسلح کردیے گئے ویسے ہی بیس مسرور پر تعینات تمام بنگالی پائلٹوں کو گراؤنڈ کردیا گیا۔ ان میں ہمارا انسٹرکٹر مطیع الرحمان بھی شامل تھا۔ انٹرنیٹ پر مکتی باہنی کی ایک ویب سائٹ یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ سن اکہتر کے شروع کے مہینوں میں جنوری سے اپریل تک مطیع الرحمان چھٹی پر ڈھاکہ میں تھا اور مکتی گوریلوں کے ساتھ چھاپہ مار کارروائیوں میں بھی شامل رہا۔ گوکہ اس کی تصدیق یا تائید ہم نہیں کرسکے مگر یہ دعویٰ قرینِ قیاس معلوم نہیں ہوتا۔ جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ مارچ کے بعد کے مہینوں میں بیس مسرور کے بنگالی پائلٹوں میں بے چینی ضرور تھی۔ کچھ مشرقی بازو سے آتی خبروں کے کارن اورکچھ اس وجہ سے بھی کہ ایک ناکردہ جرم کی پاداش میں محض شک کی بنیاد پر وہ سارے گراؤنڈ کردیئے گئے تھے۔ چھُپ چھُپ کر کچھ ملاقاتیں ضرور رہی تھیں جنکا ذکر اس وقت کے بنگالی پائلٹوں نے بعد ازاں ایئرکموڈور قیصر طفیل سے کیا جسکا ذکر وہ راشد منہاس پر اپنے مضمون میں بھی کرتے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں مطیع الرحمان کو گراؤنڈ ہوئے پائلٹوں کے مقابلے میں ایک فوقیت یہ حاصل تھی کہ گراؤنڈ سیفٹی آفیسر ہونے کی حیثیت سے وہ واحد بنگالی افسر تھا جس کی رسائی بیس مسرور کے ٹارمیک تک تھی۔ کچھ اس کی وجہ مطیع الرحمان کی ’بے ضرر‘ ہونے کی شہرت بھی رہی ہوگی جس کی بنا پرمسزمطیعُر کا مغربی پاکستانی بیگمات کے ہاں آنا جانا تھا اورعین ممکن ہے فلائٹ لیفٹینٹ مطیع الرحمان پر بقیہ بنگالی افسروں کے مقابلے میں بیس کے افسروں کو زیادہ بھروسہ بھی رہا ہو۔ صاحبو ایک بنگالی دل مطیع الرحمان کے سینے میں بھی دھڑکتا تو تھا۔ پیچھے سونار بنگلہ میں اس کے ہم وطن اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے، اس فوج کے ہاتھوں جس نے انہیں مغربی بازو میں معطل کرکے رکھ دیا تھا۔ آزادی کی جنگ کو پلٹنے کو اس کا بھی دل اکساتا تو ہوگا اور اگر ایسا قدم ایک پاکستانی جہاز بمعہ پائلٹ اغوا کرکے اٹھایا جائےتو اس کے خوش کن نتائج ہی ہیجان میں مبتلا کرنے کو کافی تھے۔

پائلٹ آفیسر مطیع الرحمان آگے والی قطار میں دائیں سے دوسرے نمبر پر ۔ 1963
ستمبر 1965 کے دن، سیبر طیارے کے سامنے۔ مطیع الرحمان دائیں سے دوسرے نمبر پر

بیس مسرور کے بنگالی افسروں کے پاس ملکی سلامتی کو نقصان پہنچاتے کوئی راز نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے کوئی حساس نوعیت کے نقشے مارک کررکھے تھے جنہیں مطیع الرحمان ہندوستان کو فروخت کرنے جارہا تھا۔ وہ پاک فضائیہ کے ایک جہاز کو بمع ہواباز ہندوستان میں اتارنے کی نیت سے جہاز میں چڑھا تھا۔ اس دن منہاس کی جگہ کوئی اور پائلٹ ہوتا تب بھی جہاز اغوا ہونے سے نہ روک سکتا۔ رن وے پر جانے کو ٹیکسی کرتے جہاز کو اگر سیفٹی افسر رکنے کااشارہ کرے تو کون ہوگا جو نہ رکے اور اس صورت میں کہ روکنے والا فلائنگ انسٹرکٹر بھی ہو تو کون ہوگا جو اسے جہاز کے پاس نہ آنے دے۔ مطیع الرحمان نے اپنے عہدے اور حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاک فضائیہ کے اعتماد کو دھوکہ دیا۔ کچھ اسی طرح کا کام بہت بڑے پیمانے پر پاک فوج نے مشرقی بازو میں کیا تھا۔ اپنی پوزیشن اور طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسٹ بنگال رجمنٹ اور رائفلز کے سپاہیوں کے اعتماد کو دھوکہ دیا تھا۔ ایک آپسی جنگ میں غداری اور جوانمردی برابر کے پلڑے میں تلنے والے دو باٹ تھے۔ ٹھٹھہ سے آگے گوٹ احمد شاہ کی فضاؤں میں جہاز کی اگلی اور پچھلی سیٹوں کے کنٹرول سنبھالے ایک مومن اور منافق اپنے اپنے ایمان اور حب الوطنی کی بقا کی جنگ لڑرہے تھے۔
15 دسمبر 1973 کو ایک آزاد مملکت بنگلہ دیش نے فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کی وطن کی خاطر دی قربانی کے اعتراف میں اپنے شہید ہواباز کو بہادری کے سب سے بڑے اعزاز بیر سریشٹو سے نوازا جو ہماری فوج میں دیئے جانے والے نشانِ حیدرکے مساوی ہے۔ بعد ازاں جیسور کی ایئرفورس بیس کا نام مطیع الرحمان کے نام پر تبدیل کردیا گیا۔ 2003 کا ذکر ہے جب بنگلہ دیش کی حکومت نے آزادی کی جنگ میں کام آئے بہادری کا سب سے بڑا اعزاز حاصل کرنے والے سات بیرسریشٹو سپاہیوں کی یادگاریں ان مقامات پر بنانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ شہید ہوئے تھے۔ ان میں سے فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کی یادگار ڈھاکہ میں بیجوشرانی میں بنانے کا فیصلہ ہوا کہ بنگلہ دیش کے اس سپوت کی جائے شہادت پاکستان میں تھی۔ یہ تب کی بات ہے کہ مسز ملی رحمان نے 1994 میں اپنی بیٹی کی حکومت کو دی گئی درخواست کی طرف دوبارہ توجہ دلائی۔ اور تب کچھ یوں ہوا کہ 2006 میں سفارتکارانہ تعلقات میں بہتری کی جانب اٹھائے گئے قدم میں حکومتِ پاکستان نے فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کی باقیات کو بنگلہ دیش منتقل کرنے کی سرکاری اجازت دے دی۔
ڈھاکہ سے کراچی آئے وفد کی نگرانی میں فضائیہ کےافسروں اور خطیب نےایک آخری مرتبہ فاتحہ پڑھتے ہوئے شارع مسرورکے پہلو سے لگی ایک چھوٹی پہاڑی کے دامن میں واقع قبرستان میں مزدوروں کو قبرنمبر 01 کی قبرکشائی کا گرین سگنل دیا۔ 2006 کے جون میں بنگلہ دیش کے جھنڈے میں لپٹی ان کے سپوت کی باقیات ڈھاکہ پہنچیں تو نیشنل پریڈ سکوائر میں عوامی پذیرائی اور نمازِ جنازہ کے بعد مسز ملی رحمان اور ان کی چھوٹی بیٹی کی موجودگی میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان شہید بیر سریشٹو کو’شہید بُدھیجیبی کوبرستان‘ جسے ’مارٹائرڈ انٹلکچوئل گریویارڈ‘ بھی کہتے ہیں میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ مسرور کی ایک لاوارث گور کے مکین کو بالآخر اس کی اپنی سرزمین میں آزادی کے شہید کے رتبے کے حسبِ حال مزار نصیب ہوا۔ بیس مسرور کی اس ریتلی رات میں ساحلی نمک کا ذائقہ ہونٹوں پر لیے ہم جس تربت کو کھوجتے تھے وہ اب وہاں نہیں تھی۔

مطیع الرحمان کی باقیات کو بنگلہ دیش منتقل کرنے کے لیے، پاک فضائیہ کی بیس مسرور کے قبرستان میں قبر نمبر 01 کی قبرکشائی

ڈھاکہ کے مارٹائرڈ انٹلکچوئل گریویارڈ میں مطیع الرحمان کا موجودہ مدفن

ایک پرآشوب اکہتر کے اگست کی بیس تاریخ کی دوپہر شاہ بندر کی ساحلی پٹی سے کچھ ادھر گوٹھ احمد شاہ کی فضاؤں میں ایک ہی جنگی جہاز کی نشستوں پر لڑی کنٹرول کی جنگ دو پائلٹوں کی بقا کی جنگ تھی، جس کا پانسہ راشد کے ہاتھ رہا۔ ایک بے جگری سے لڑے دونوں سپوتوں کو ان کی اپنی حکومتوں نے بہادری کے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا، دونوں ملکوں نے فضائیہ کی ایک ایئر بیس اپنے شہیدوں کے نام کی اور انجام کار ایک حکومتی درخواست کو قبول کرتےہوئے ایک شہید کی باقیات کو اس کے موجودہ وطن روانہ کردیا گیا۔ اپنے لوگوں کے لیے دونوں شہید ایک دوسرے کے لیے غاصب اور غدار ٹھہرتے ہیں۔

صٓاحبو پچھلی صدی کے آخری عشرے کے ابتدائی سالوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے باہم مل جانے کی آس رکھتے پروفیسر وصی ہوں، یا آج کے دونوں ملکوں کی دوستی کا دم بھرتے جانکار شہری۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ 2006 میں ایک قبرکشائی کے بعد باقیات کو بنگلہ دیش بھیجنے کے مقابلے میں کیا ہم بیرسریشٹو فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کا مزار اس دھرتی پر کھڑا کرنے کی اجازت دے دیتے؟ کیا آج کے بنگلہ دیش میں بوگرہ کے فائر سٹیشن کے مقابل قبرستان کی ایک بے نامی قبر میں دفن اکہتر کی پاک بھارت جنگ میں ھِلّی کے ہیرو میجر محمد اکرم شہید، نشانِ حیدر کا مزار سونار بنگلہ میں بن سکتا ہے؟

share this article
author bio

Imran Saeed

I am a teller of old tales. History, folklore, military, and more. Mostly covering Pakistan, my homeland, but also the Great White North, where I am currently settled.
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments