گوگیرہ برانچ سے بنگلہ گوگیرہ

تینوں ڈھکاں یاد کریندیاں ہن
ہک واری مڑآویں ہا
رائے نتھودیا احمد خاناں
وے راوی دیا لاہڑیا

چک نمبر اٹھاٹ گ۔ب

قرن ہا قرن کی پرتوں تلے دفن ہری یوپیا کی الفت میں اپنے مستنصر حسین تارڑ ایک لافانی ناول بہاؤ تخلیق کرتے ہیں تو اس کا انتساب ایک دیومالائی گم گشتہ ندی کے نام کرتے ہیں


سرسوتی جو بڑے پانیوں کی ماں ہے ۔۔۔
اور ساتویں ندی ہے،
اس کے پانی آتےہیں،
شاندار اور بلند آواز میں چنگھاڑتے ہوئے۔


ہر تخیل کا اپنا کینوس ہوتا ہے۔ آج سوچتا ہوں تو بچپن کے تخیل کی اس معصوم سلیٹ پر ایسا ہی ہیجان طاری ہوتا تھا جس دن گاؤں کے کھیتوں میں پانی لگنے کی باری ہوتی تھی۔ ہم بچے خشک گھاس پھوس سے کھال کی زمین صاف کرکے ایک اشتیاق میں دور ایک نادیدہ مقام پر نظریں جمائے بیٹھتے تھے کہ وہاں اباجی (ہمارے دادا) کاندھے پر کسی ڈالے، ’ٹیلاں‘ کے نکے سے ڈکا ہٹا پانی کھولنے گئے ہوتے۔ تو بالکل ایسے جیسے تارڑ کے ہری یوپیا کی خشک زمینوں کو سیراب کرتے بڑے پانی آتے تھے، چک نمبر اٹھاٹ گ ب کے چھوٹے کھال کو آباد کرتے اپنے جلو میں خشک پتے اور مٹیالی مٹی لیے وہ آتے، ہم بچوں کے بڑے پانی۔


گوگیرہ برانچ جو بڑے پانیوں کی ماں ہے ۔۔۔
اور راوی اور چناب کے دوآب کی زمینوں میں رَکھ اور جھنگ برانچ کی قربت میں تیسری ندی ہے،
اس کے پانی آتے ہیں، شاندار اور بلند آواز میں چنگھاڑتے ہوئے۔


جب ہم بچے کچھ بڑے ہوگئے توجن دنوں ہماری پانی کی باری ہوتی تھی اپنے ہم عمر تایا زاد حفیظ کے ساتھ ایک دو دفعہ پانی کھولنے ’ٹیلاں‘ پر جانے کا اتفاق ہوا تو بڑا دل چاہا کہ ان راجواہیوں اورپانی کے کھالوں کا کھُرا پکڑ چلتے چلے جائیں اور گوگیرہ برانچ کے لشکتے پانی دیکھ آئیں۔ گوگل میپ کی سہولتوں سے عاری ایک محدود جغرافیے کی زندگی نے بڑے بوڑھوں سے سُن رکھا تھا کہ جو راستہ سمندری سے ہماری بڑی مامی کے پیکے اوکاڑے کو جاتا ہے وہیں راوی کے پانیوں کے پار گوگیرہ ہے۔ گوگیرہ برانچ والا بنگلہ گوگیرہ۔ بعد کےسالوں میں جب ہماری ٹانگیں قینچی سائیکل چلانے پر رواں ہوئیں تو حفیظ اور میں چند ایک بار جسوآنہ بنگلہ گئے۔ جڑانوالہ مائنر کا پُل اتر کر نہری محکمے کے اس گیری رنگے طلسماتی ریسٹ ہاؤس پر ہم گوگیرہ بنگلے کو خیال کرتے تھے، کہ جب بڑے ہوکر گوگیرہ برانچ کے پانیوں کی کھوج کو نکلے تو ایسے ہی کسی بنگلے کی خبر لائیں گے۔


چک نمبر اٹھاٹ گ۔ب، رام گڑھ کی زمینوں کو سیراب کرتے بڑے پانی
چک نمبر اٹھاٹ گ۔ب، رام گڑھ
جڑانوالہ کے پاس پنج پلہ کے مقام سے نکلتی گوگیرہ برانچ
کینال ریسٹ ہاؤس ۔ جسوآنہ بنگلہ

جب میں بنگلہ گوگیرہ دیکھنے کو نکلا تو پتنوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزرچکا تھا۔ ایک سولہ سالہ فوجی کیرئیرکے سردوگرم دیکھ کر لاہورمیں ایک پرائیوٹ لمیٹڈ فرم ایکسل لیب کے ساتھ وابستہ تھا۔ ایک کاہلانہ تسلسل سے گزرتے شب وروز میں ہلچل تب مچی جب دوصدی قبل کی ایک جنگِ آزادی کی باقیات کھنگالتے نقشے پر گوگیرہ نام نظر پڑا۔ اٹھاٹ گ ب، پانی کی باری، گوگیرہ برانچ اور جسوآنہ بنگلہ، یادوں کے جوار بھاٹے میں کتنے بُھولے بسرےمنظر چشم زدن میں گزرگئے۔ تو پھر یوں ہوا کہ میں بنگلہ گوگیرہ کو دیکھنے کی دُھن میں راوی کے پتن پر لڑی آزادی کی جنگ کے نشانوں کی کھوج کو نکلا۔


تارے نی اکھ تارے
میرا مرشد راوی کنارے


گنجی بار کا گوگیرہ

انگریزوں کے نہری نظام متعارف کروانے اور زمینوں کی الاٹمنٹ کے بعد مالوے، ماجھے اور دوآبے کے سکھ کاشتکاروں کی آبادکاری سے پہلے لہندے پنجاب کی پانچ دریاؤں کی سرزمین ایک گھنا جنگل تھا جسے بار کا علاقہ کہتے تھے۔ شاہ پور سرگودھا کی طرف جہلم اور چناب کے بیچ کڑیانہ بار۔ لائل پور اور اس کے نواحی علاقے پر مشتمل راوی اور چناب کے دوآب کے بیچ والی زمین ساندل بار، وہی دلے بھٹی والی ساندل بار۔ راوی سے بیاس کی طرف ساہیوال، ہڑپہ اور پاکپتن کی زمین گنجی بار کہلاتی تھی۔ ضلع منٹگمری (ساہیوال) کی پوربی دشا میں سلیمانکی فاضلکا سے نیچے ستلج اور بیاس کے سنگم کا علاقہ نیلی بارکہلاتا تھا، وہ کچھ اس لیے کہ یہاں ستلج کا پانی جبکہ وہ بہتا تھا تو مٹی کی گدلاہٹ سے پاک صاف شفاف نیلگوں بہتا تھا۔


بار کے آزادمنش لوگ نہ تو مغلوں کے زیرِ فرمان رہے اور نہ ہی انگریز سرکار ان کی مشکیں کسنے میں کامیاب ہو پائی۔ نتیجتاً لکھی تاریخ میں یہ علاقہ جانگلیوں، چور اچکوں اور مال مویشی چوروں کی سرزمین کہلایا۔ صاحبو لکھی تاریخ تو اسی گروہ کا نقطۂ نظر بتاتی اور دکھاتی ہے مورخ جن کی نوکری میں ہو۔ جب اس علاقے کی مروج تاریخ نے ان سے صرفِ نظر کیا تو ان ’انکھی‘ لوگوں نے ڈھولوں، واروں اور لوک گیتوں کا سہارا لے کر خوداپنی تاریخ کہہ ڈالی۔ ہمارےدوست محمد حسن معراج کہتےہیں ’ماؤں، دادیوں نےجنم جنم کی کہانیاں، لفظوں میں لپیٹ کرطاقوں میں رکھنےکی بجائے، گیتوں کی دھن، لوری کی تھاپ، چرخےکےچکر اورچکی کی چال کوسونپ دیں‘۔


1849 میں جب راوی اور ستلج کا دوآب انگریزوں کے زیرِ تسلط آیا تو اس علاقے کو ضلعے کا درجہ دے کر پاکپتن میں ہیڈکوارٹر قائم کیا گیا۔ تین سال بعد جب جھنگ تک کا راوی کے پار کا علاقہ بھی ضلعے میں شامل ہوا تو ہیڈکوارٹر بھی پاکپتن سے اٹھ کر راوی کے پتن کے اوپر گوگیرہ منتقل ہو گیا۔

آج بھی جب انگریز پنجاب میں گنجی بار کے علاقے میں اٹھی جنگِ آزادی کی واحد لہر کو یاد کرتا ہے تو راوی کے راٹھ جھامرے کے رائے احمد کھرل کا سرسری سا ذکر کرتا ہے کہ وہ علاقے کا نامی زمیندار اور آس پاس کے قبیلوں کا سردار تھا جس نے ستگھرہ کی جنگ میں سکھوں کو انگریزوں کے خلاف ابھارا تھا اور بعد میں ان سے بھی بے وفائی کرگیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکپتن ۔ منٹگمری(ساہیوال) ۔ گوگیرہ کی زمینوں میں اٹھارہ سو ستاون میں آزادی کی جو جنگ لڑی گئی اس کا روحِ رواں جھامرہ کا رائے احمد کھرل تھا اور اس کی فوج میں اس کے ’بانہہ بیلی‘ علاقے کے نامی گرامی قبیلوں کے دوسرے سردار تھے جنہوں نے کھلے بندوں انگریزوں سے اعلانِ جنگ کردیا تھا۔ جہاں برطانوی سرکار کے گزٹ خاموش ہوتے ہیں وہاں دادا پھوگی کے ڈھولے اپنی تان اٹھاتے ہیں۔


گل شہیداحمد خان دی، جیں دابیلی سُوجا بھدرو نادر شاہ قریشی ولی داد مردانہ
مامد کاٹھیا مراد دلیل دا فتیانہ، اگانہہ وی میوے بہشتاں دے جا گھدیانے
مامد خان سردار جھامرے دا شالا رعیت پئی وسس خوش آرامے
جیہڑے پُتر، پوترے احمد خان دے، شالا جھوٹن وچ پگوڑھیاں دے
اگانہہ مدد اوہناں دی ہوونااے امام حسین ؑ دے نانے

کھرل بمقابلہ برکلی گنجی بار کی دھرتی پر لڑی آزادی کی جنگ کی کہانی ہے اور اس کے دو کلیدی کرداروں کی ٹکر کی کہانی ہے۔ راوی کا پانی پیتے جھامرہ کے باجے کے کھرلوں کے سردار رائے نتھو کے گھر پیدا ہوا رائے احمد خان کہ ’ڈھکاں‘ اکیاسی برس کی عمر میں اس کی جوانی کی گواہی دیتی ہیں۔ ساندل اور گنجی بار کے سنگم کے وسنیک کھرل سردار کہ انہوں نے کسی کی باج گزاری میں کبھی سرنہیں جھکایا۔ راوی کے راٹھ جن کے بارے میں ڈھولے یہ گاتے ہیں کہ بھڑنے پرآئے تو اکبر بادشاہ کی فوج سے بھڑگئے اور رنجیت سنگھ بھی جب اس دھرتی سے گزرا تو پہلو بچا کے گزرا (اوس توں ولا کے لنگھ جانداراجہ رنجیت سنگھ نمانا)۔ پھر ضلع گوگیرہ کا ایکسٹرا اسسٹننٹ کمشنر لیفٹیننٹ لیوپولڈ آلیور فِزہارڈنگ برکلے ہے جسے بار کے ڈھولے` اور واریں برکلی کے نام سے جانتی ہیں۔ اور جیسے کہ سیالوں کےوطن جاتے مرزے جٹ کو ماں ’متاں‘ دیتی تھی تو ’لندنوں ٹُردے‘ برکلی کو اس کی ماں مت دیتی ہے۔


انگریز برکلی دی تیاری لندنوں پئی ہوندی اے
اودوں چھک چا کیتی ہیس ان پالی تے دانے
چڑھدے انگریز نوں ماں متیں دیوے، آکھے
اوتھے رائے احمد خان ہئی تے سمھل کے ورتیں، اوہ مڈھوں دے نی راٹھ سترانے
انگریز برکلی آکھیا، اسیں واقف قنون دے، ضلع تحصیل پہلوں لینے گھت ٹھانے
انگریز برکلی نوں ماں پئی آکھے، ایہناں کھرلاں اگے دیر خاں مرزے دا جالیا ہئی
سیالاں توں چُکے ہائیں وِگ پُرانے
ایہناں کھرلاں اگے جنگ اکبر بتشاہ نال وی کیتا ہئی
مدانوں کدی نہ اوہ ڈُلانے


کھرل بمقابلہ برکلی رائے احمد کے بانہہ بیلیوں کی کہانی ہے۔ سیدوالے کے بیگے کے کھرلوں میں راہماند کے گھر کا سارنگ ہے جو گشکوری کے جنگل میں رائے احمد کے کندھے سے کندھا جوڑے کھڑا ہے۔ ہڑپے کے وسنیک مامد اور نتھو کاٹھیا ہیں، پنڈی شیخ موسیٰ کا نادرشاہ قریشی ہے۔ لائل پور کی قربت میں موضع گڑھ فتیانہ کے دلیل فتیانے کا بیٹا مراد فتیانہ ہے، پنڈ محمد پور کا ولی داد مردانہ ہے، قصبہ نورشاہ کا سُوجھا بھدرو اور گڑھ فتح شاہ کا جَلّا ترہانہ ہیں۔ اور راوی کےبہاؤ کے ساتھ بہتی اور بستی ویہنیوالوں کی بھینیوں میں سے اُٹھتا کوڑے شاہ کے جنگل میں ولی داد مردانے کی ہِک کے ساتھ ہِک جوڑ کے لڑتا ایک طلسماتی کردار موکھا ویہنیوال ہے۔


کھرل بمقابلہ برکلی


ستمبر کی اس سہ پہر جب میں گوگیرہ کی کھوج کو نکلا تو ’نہروں پار بنگلے‘ والےبچپن کے تخیل میں کچھ اور زمینی نشانوں کا اضافہ ہوچکا تھا۔ راوی کے پتن پر واقع آج کے اس چھوٹے قصبے میں وارد ہونے کے بعد جب میں راستہ پوچھنے کو رُکا تو وہاں مجھے ارشاد مِلا۔ راہنمائی کی جانکاری اور حال احوال کے بعد گوگیرہ میں اجنبی اپنے پہلے زمینی نشان کی طرف چل دیا۔
بنگلہ گوگیرہ میں گزرے کل کی ڈپٹی کمشنر کی کچہری آج کا ڈسٹرکٹ کونسل ہائی سکول ہے۔ یہاں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ٹریڈ مارکہ نشان میں گھری ایک تختی رائے احمد کھرل کی یادگارہے۔ سکول سے تھوڑا دور چواطراف فصیلوں سے گھری کھنڈر ہوتی ایک عمارت اپنے داخلی دروازے کے ماتھے پر کسی آستانہ عالیہ کا جھُومر سجائے کھڑی ہے۔ یہ گئے دنوں کا جیل خانہ ہے۔ یہاں مجھے حالیہ آبادکار ولی دین ملا اور اتنے میں ارشاد بھی پوچھتا پاچھتا وہاں پہنچ گیا۔ چونکہ میں رائے احمد کا مہمان تھا تو میں ارشاد کا بھی مہمان تھا اور کھرل قوم کا سپوت ہونے کے ناطے ارشاد نے میری میزبانی اپنے اوپر فرض کرلی تھی، اور یہ صرف گوگیرہ تک محدود نہیں تھی (اس کا مزید ذکر آگے آئے گا)۔ تو کچھ یوں ہوا کہ کل کے جیل خانے اور آج کے دربار کی حالیہ مسجد کے تھڑے پر بیٹھ کر ہم نے چاوے وٹو اور اس کے یاروں کی جیل داروغے نظام دین کے ساتھ مل کر جیل توڑنے کی کہانی سنی۔ 26 جولائی 1857 کو جیل سے فرار کےاس منصوبے کا بھانڈا عین عملدرآمد کے وقت پھوٹ گیا۔ لگ بھگ ایک سو پینتالیس قیدی مارے گئے جو قریب قریب سارے مسلمان تھے (کہتے ہیں سکھ قیدیوں نے مسلمانوں کی لگائی اس نقب میں حصہ نہیں لیا)۔ جوابی مزاحمت میں انگریز اور مقامی سپاہی بھی تہہ تیغ ہوئے۔ بغاوت کی خبروں اور آزادی کی لہر سے لرزتے ضلعے میں یہ ایک بڑی کارروائی تھی جسکا تاوان راوی کی قربت میں پڑتے گاؤں کی کھڑی فصلوں اور عورتوں اور بچوں نے ادا کیا کہ بدلے کی آگ میں جلتے انگریز سے کچھ بھی محفوظ نہیں تھا۔ انہی تباہ ہوئے موضعوں میں ایک رائے احمد کا گاؤں جھامرہ بھی تھا۔


کال بلیندی نارد اُٹھیا کرکے وائی
نتُھو پروکے، ٹھوبے رجوکے، سردارے بھوجوآنے تے چاوے وٹو
چوانہہ، جیل وڈھن دی چا صلاح پکائی
اوہناں لوہار تے دتا گھل سنیہا، کوہاڑی جھب بنوائی
چاوا اُٹھیا، اوہ ناکاں تے کھلا گھت کُٹائی
نظام دین دروغہ دھروڑگیا، کولوں مُٹھی گئے کر شپاہی


ڈسٹرکٹ کونسل ہائی سکول ۔ بنگلہ گوگیرہ
گوگیرہ قلعے کا صدر دروازہ ۔ گئے دنوں کا بخشی خانہ
قلعہ گوگیرہ ۔ گئے دنوں کا بخشی خانہ

منظر بدلتا ہے اور ہماری کھوج ہمیں گوگیرہ سے روای کے ساتھ ساتھ ڈوبتے سورج کی سمت لیے چلتی ہے۔ پیرمحل سے چیچہ وطنی کو جاتی سڑک پر راوی کے پتن سے پہلے کمالیہ آتا ہے۔ ستمبر کے مہینے میں راوی کے راٹھوں کا اکٹھ ہوا تو انہوں نے جگہ بھی لکھویرے کھرلوں کا گڑھ کمالیہ چُنی۔ رائے احمد خان کی سرپرستی میں قبیلوں کے سرداروں نے قرآن پر حلف لیا کہ وہ رائے احمد کی سرداری میں آخری سانس تک انگریزوں سے لڑمریں گے۔ اس شام قرآن پر اُٹھائے حلف اور راوی کے پانیوں سے بے وفائی کرنے والوں میں کمالیے کے سرفراز کھرل اور ماچھیا نگڑیال تھے۔ سرفراز کھرل تو سیدھا گوگیرے پہنچا اور کمشنر کے دفتر میں برکلی کو تمام روداد کہ سنائی۔ شاعرِ مشرق فرما گئے ہیں
جعفر از بنگال صادق از دکن
ننگِ آدم، ننگِ دیں، ننگِ وطن
پنجاب کی دھرتی سے اس میں کمالیہ کے کھرل اور نگڑیالوں کا اضافہ کرلیجیے۔ ڈھولوں میں جہاں کھرلوں کی بے وفائی کا ذکر آتا ہے، وہیں کھرل اور برکلے کا وہ مکالمہ بھی امر ہوجاتا ہے جس میں انگریز سرکار کی خدمت میں گھوڑیاں دینے کی فرمائش اور جواباً کھرل سردار کی غیرت کا امتحان ہے کہ زمین، عورتیں اور گھوڑیاں اپنے جیتے جی سانجھی نہیں کی جاتیں!


کال بلیندی نارد چا پڑھی اے بانی
راوی دی من تے، راٹھ بہندے ہین لا کچہریاں
گلاں کردے مونہہ زبانی
قریشی، کھرل، چُرھیڑے، وٹو، باہلک، بیگ کے راٹھ
ہک دودے دے ہین ثانی
انگریز برکلی آہندا اے: رائے احمد دیویں گھوڑیاں
تیری لندنوں لکھ لیاوساں نیک نامی
رائےاحمد آہندااے: رناں بھوئیں تے گھوڑیاں، ونڈ کسے نہ دتیاں،
ہوندیاں بُت دےوچ ساہ سلامی
تیریاں تے میریاں مک جاسن اوہ انگریز! متھے لگیاں وچ مدانی
احمد تے سارنگ چِٹے جباب دے کے، جھامرے نوں گھوڑیاں دھروڑ گیانی


گوگیرہ سے جنوب کی سمت گیمبر اڈے کا رُخ کریں تو چھ میل کے فاصلے پر روڈ سے ذرا ہٹ کر ایک گاؤں ہے گشکوری۔ یہیں کہیں گاؤں سے تھوڑاہٹ کر خون آلود نورے دی ڈل ہے کہ آزادی کی چاہ میں انگریزوں کی توپوں اور بندوقوں سے لڑتے تلوار، نیزے اور برچھیوں سے مسلح مجاہدوں کے لہو کے چھینٹے یہاں گرے اور امر ہوگئے۔ ایک غیرآباد جھاڑیوں سے اٹے جنگل نما قطعے میں رائے احمد اور لشکری اکٹھے گوگیرہ پر حملہ کرنے کو پر تولتے تھے جب گشکوری کے دھاڑا سنگھ نے رائے احمد سے پرانی دشمنی چکانے کے لیے گوگیرہ میں انگریز سرکار کو خبر کردی۔ نورے دی ڈل کے جانبازوں نے تلواروں اور برچھیوں کے زور پر انگریز پلٹنوں کے حملوں کی لہر کو روکا۔ رائے احمد، سارنگ، مامدخان، بیگے کا جہانہ، عنایت کا وٹو اور دوسرے ایک دلیری سے لڑے۔
صاحبو دن تھا اکیس ستمبر اور وقت تھا عصر کا جب رائے احمد نماز پڑھنے کو الگ ہوا۔ کہتے ہیں کہ دھاڑا سنگھ کی نشاندہی پر پہلی گولی تب چلائی گئی جب احمد خان سجدے کی حالت میں تھا۔ پہلا زخم کھاکر رائے احمد نے اپنی گھوڑی مورنی کی لگام پکڑی اور جست بھر کر سوار ہوا تو گوگیرے کا کھیم سنگھ بوکھلا اُٹھا کہ شہسوار رائے احمد تو کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ اس کی نشاندہی پر دوسرا فائر ہوا جو کاری ثابت ہوا۔ مورنی جب خالی زین لیے بغیر سوار جھامرہ پہنچی تو خبر پھیل گئی کہ کھرلوں کا سردار مارا گیا۔


برکلی آکھے: احمد خاں نوں سر پر مارنا، دے کے کوڑے لارے
نورے کیاں آلی ڈل دے اُتے، بھیڑ مقابلہ ڈھلاں اکٹھیاں ہوئیاں ہین چارے
احمد خان وضو ساز نماز چا نیتی فرض پڑھو ہے چارے
توڑوں گئیس مُک حیاتی، راٹھ دے پُلنے کھلے ہین کارے
سر سجدے اُتے چادھریا، گلاب بیدی تپک چلائی
کیڈا چا کیتا کھوٹ ہتیارے
احمد خان شہید ہویا، خلقت نوں تَلِیوں لگی چوٹیوں نکلی اے مار بھڑکارے
فقیر آہندا اے: میں اوہنوں انکھی نہیں سمجھدا، جیہڑا احمد خان دا دُکھ وسارے


رائے احمد کے ساتھ نورے دی ڈل میں سارنگ بھی شہید ہوا۔ کہتے ہیں کہ انگریزوں نے رائے احمد کا سر اتار لیا اور گوگیرہ جیل کی دیوار پر نمائش کے لیے رکھ دیا، جس پر مراد فتیانے اور سوجے بھدرو نے قسم کھائی کہ وہ برکلی کاسر اتار کے لائیں گے۔ اکیس ستمبر کو جب نورے دی ڈل میں گھمسان کا رن پڑا تھا تو ہماری کہانی کا دوسرا کلیدی کردار ایکسٹرا اسسٹننٹ کمشنر برکلے وہاں نہیں تھا۔ اٹھارہ ستمبر کو برکلی گھڑسواروں اور پیادوں کا دستہ لے کر کوڑے شاہ کے جنگل کی سمت بھیجا گیا تھا تاکہ ملتان سے رابطہ قائم ہونے کی کوئی سبیل نکال سکے۔ وہاں انگریزوں کے نمک خوار نمبردار جیوے شاہ آرائیں کے گاؤں موضع اکبر کے باہر اس کا ٹاکرا وٹوؤں سے ہوا جو انگریزوں کی پشت پناہی کی پاداش میں گاؤں لوٹنے آئے تھے۔ رات کی رات اس لڑائی کے بعد دن کی روشنی میں ہی برکلی کی فوج کوڑے شاہ کے جنگل پہنچ پائی اور مجاہدوں کو خبر مِل گئی تھی کہ برکلے کا پڑاؤ کہاں ہے۔ 22 ستمبر کی صبح کوڑے شاہ میں طلوع ہوئی تو مجاہد برکلے کےسواروں کو گھیرا ڈال چکے تھے۔ مراد فتیانے کا نیزہ برکلے کے سینے کے پار ہوا تو ادھ مرے برکلی کو سوجے بھدرو کی ڈانگ نے مار مکایا۔


بھالا وچوں سینے دے پار جھگایا ہیس ہلا کے ہیٹھاں ماریا سُوں
جیویں لچھا لیا اے جھول للاریاں
اُٹھیندے انگریز نوں مل گیا سوجا بھدرو
جس ڈِگدے نوں ڈانگاں ماریاں
آہندا اے مراد فتیانہ سانوں تاں لکھی ڈھیسیں
پر توں وی حاطے گوگیرے آلے وچ نہ بہسیں لا کچہریاں


بنگلہ گوگیرہ سے ماڑی پتن پر راوی کے پار اُتر جائیں اور دریا کے بہاؤ کے مخالف سید والہ کی سمت چلتے جائیں تو جھامرہ کے قدیمی قبرستان میں ایک مزار نظر پڑتا ہے۔ یہاں مجھے گوگیرہ سے اگلی صبح ارشاد کھرل لے کر آیا تھا کہ گوگیرے کی میزبانی کا حق ادا نہیں ہونا تھا جب تک کہ کھرلوں کا مہمان رائے احمد کے آبائی گاؤں جھامرہ سے لسی پانی نہ کرلے۔ مہمان نوازی کی روایت سے پرباش میں اور ارشاد اب رائے احمد کے مزار پر کھڑے تھے۔ نورے دی ڈل سے رائے احمد کا دھڑ مجاہد اٹھا لائے تھے جسے یہاں قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا تھا۔ گوگیرے کی جیل پر دھرے مٹکے میں نمائش کے لیے رکھا راوی کے راٹھ کا سر ایک عقیدت مند میراثی اٹھا لایا تھا جسے کھرلوں نے رائے احمد کی قبر کی قربت میں دفنا دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ستر کی دہائی میں جب مزار کا کام شروع ہوا تو رائے احمد کی قبر کشائی کرتے ہوئے ساتھ ہی دبایا سر بھی برآمد ہوا۔ جھامرے میں واقع آج کے مزار کی تربت میں رائے احمد کا سر اور دھڑ دونوں ساتھ سو رہے ہیں۔


گوگیرہ میں کچہری اور جیل خانے سے تھوڑا ہٹ کر گورا قبرستان ہے۔ یہاں نئی قبروں کے ساتھ پرانی تدفین کے کچھ آثارہیں جو بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں۔ انہی میں سے ایک قبر گوگیرہ کے ایکسٹرا اسسٹننٹ کمشنر برکلے کی بتائی جاتی ہے۔ مگر گنجی بار کے ڈھولے ہمیں بتاتے ہیں کہ کوڑے شاہ میں ترہانوں اور فتیانوں نے برکلے کا سر اتار کر نیزے پر ٹانگ لیا تھا اوراپنے ساتھ ہی لے گئے تھے۔ برکلے کا دھڑ جلا کر دریا برد کردیا گیا۔ جو انگریز افسر برکلے کی لاش کا سوالی بن کر آیا تھا اسے جب کورا جواب ملا تو کہتے ہیں کہ اس نے زمین پر ہاتھ مارا اور ہاتھ پر لگی مٹی علامتی طور پر دکھائی کہ لاش نہ سہی کچھ تونشان بچا ہوگا، تن کے کپڑے یا کوئی ٹکڑا یا ذرہ۔ جواباً ایک مجاہد نے بھی ہاتھ زمین پر مارا اور ہاتھ پر لگی مٹی کو بہتے پانی میں دھودیا۔ یہ جواب تھا کہ برکلےکا جو کچھ بچا تھا وہ دریا برد کردیاگیا۔ اس حساب سے گوگیرے میں برکلے کی تربت ایک علامتی قبر ہوگی مگر اب تو اس کا بھی کچھ نشان نہیں ملتا۔

گوگیرہ کے ایکسٹرا اسسٹننٹ کمشنر برکلے کا اگر کوئی نشان بچا ہے تو ساہیوال کے ضلعی دفتروں کےعلاقے میں ایک صلیب پر کندہ دو سطری عبارت ہے۔

جھامرہ کے قدیمی قبرستان میں رائے احمد خان کھرل کا مزار
گوگیرہ میں شکستہ گورا قبرستان۔ گنتی کی پرانی قبریں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں
برکلے کی یادگار ۔ ساہیوال کے ضلعی دفتروں کےعلاقے میں ایک صلیب پر کندہ دو سطری عبارت

مجاہدوں سے انگریزوں کی آخری لڑائی کمالیے سے کچھ آگے مل فتیانہ گاؤں کےباہر ایک رکھ جلہی فتیانہ میں ہوئی۔ فتیانے اور ترہانے برکلی کا سر نیزے پر ٹانگ جلہی آگئے تھے۔ رائے احمد کی شہادت کے بعد بچے کھچے مجاہدوں کا ایک منظم انگریز فوج سے مقابلہ مشکل تھا۔ 23 اکتوبرکو جلہی کی لڑائی میں ہاتھ لگے مجاہدوں کو توپوں کے دہانے سے باندھ کر اڑا دیاگیا۔ جو بچے وہ نیلی بارکی سمت بھاگ نکلے۔ یہ گوگیرہ میں ہوئی مزاحمت کا اختتام تھا۔ کہنے کو تو کہانی یہاں ختم ہوجانی چاہیے۔ مگر صاحبو جو کہانیاں بغاوت سے جنم لیتی ہیں وہ مزاحمت کے ختم ہوجانے کے بعد بغاوت کے کچلے جانے کا آموختہ بھی تو سناتی ہیں۔ دھرتی ماں کی عزت کو چند اشرفیوں، زمین کے چند ٹکڑوں کے عوض مخبریوں میں نیلام کردینے والوں کا کُھرا بھی تو پکڑاتی ہیں۔

سرائے سدھو سے درکھانا اور چک داتار سنگھ

تاریخ شناسی اور تاریخ نویسی میں ہمارے گرُو سلمان رشید کے مرُشد ڈاکٹر سیف الرحمٰن ڈار جرنیلی سڑک پر کچھ قدیمی نشانوں کی کھوج کو نکلے تھے۔ وہ خود تو لاہورکے خضری دروازے سے نکل دارالشکوہ کے شاہدرہ سے آگے شمال کے مسافر ہوگئے مگر جاتے جاتے ہمیں لوہاری گیٹ کے راستے پر ڈال گئے۔ گوروں کے دور سے اپنی قدیمی شکل برقرار رکھتے لاہوری دروازے سے جنوب کی سمت جرنیلی سڑک کی ایک ذیلی شاخ نکلتی ہے جو راوی کے پانیوں کی قربت میں پیروں کے دیس مولتان کو چلتی چلی جاتی ہے۔ اور یہیں ہمیں رفتگاں کی دُھول میں اٹی کچھ کارواں سراؤں کے سراغ ملتے ہیں۔ وجہ تسمیہ تو ہمیں نہیں معلوم لیکن یہ ککھاں والی سڑک کہلاتی تھی۔ صاحبو اب آپ کو کیا بتائیں اس آٹھ سطری پیراگراف میں ایک دلِ آوارہ کے لیے کیا کیا بلاوے اور کیسی کیسی حشرسامانیاں پنہاں تھیں۔


جب ہم ایکسل لیب کے لاہور آفس کا انتظام و انصرام دیکھنے اس شہرِ دلپذیر میں وارد ہوئے تو ایک فرنچائزنگ آؤٹ ریچ میں لاہورسے ملتان کو جاتی راہوں کے بھی مسافر ہوئے۔ ایسی ہی ایک یاترا میں جب ہم نے آنجہانی جنید جمشید کےفرمان کی پیروی میں وہ راستہ چُنا جس پر کوئی نہیں گیا تو شورکوٹ سے آگے کبیروالہ کی قربت میں سرائے سدھو جا پہنچے۔ کہتےہیں کہ ایودھیا سے ایک بن باس پر دربدرہوئے رام اور لکشمن جب ان زمینوں پر راوی کے پانیوں میں اشنان کرنے کو اترے تو رینگتے سانپ کے لہریوں کی مانند بل کھاتا دریا بہتے بہتے ایک دم سیدھ میں آگیا کہ پیچھے سیتا کُنڈ کے جٹا دھاری برگد کی چھاؤں میں کھڑی سیتا سے ملِی رام کی نظر نہ ٹوٹ جائے


آ ساجن مورے نینن میں، سو پلک ڈھانپ توہے لوں
نہ میں دیکھوں اورن کو، نہ توہے دیکھن دوں


یہاں آج بھی چناب میں گرنے کوپر تولتا راوی الف سیدھ میں بہتا ہے اور یہ جگہ سدھنائی کہلاتی ہے۔ بعد کے سالوں میں یہیں سدھنائی کے پانیوں پر جب ایک کشتی ڈولتی تھی اور سُور کا شیر شاہ ایک آلکس میں غروبِ آفتاب کے پگھلتے رنگوں سے آسودہ ہوتا تھا تو ایک خسروانہ فیاضی میں جفاکش مہانے سے گویا ہوا کہ مانگو کیا مانگتے ہو۔ نیک دل مہانا کہ نام جس کا سدھو تھا سدھنائی کے اس پتن پر لاہور سے مولتان جاتی ککھاں والی سڑک کے مسافروں کی بے چارگی کا چشم دید گواہ تھا، اپنے لیے تو کیا مانگتا شاہ سے دست بستہ ایک سرائے کے قیام کی سفارش کر بیٹھا۔ اب تاریخ کو اعتراض ہوسکتا ہے کہ بندیل کھنڈ کے مہماتی روزوشب میں زندگی ہارتا شیر شاہ غروبِ آفتاب کا نظارہ کرنے سدھنائی کیسے آیا ہوگا، مگر لوک داستانیں کہاں تاریخی شواہد کے ہاتھ آتی ہیں۔ شاہ کے حکم سے یہاں جو سرائے بنی اس کی باقیات میں سے ایک مسجد آج بھی شیر شاہی مسجد کہلاتی ہے۔ ہاں مگر سرائے کانام شاہ کے نام پر نہیں ہے، وہ کچھ یوں کہ بادشاہ کو سدھو کا بھولپن کچھ ایسا بھایا کہ اس مسکن کو مہانے کے نام کرگیا۔ سرائے سدھو کی اس سہ پہر جب ہم ماسٹر نسیم ہوشیارپوری کی بیٹھک میں چائے سے شغل کرتے تھے تو ہمارے میزبان نے حقہ گڑگڑاتے ہوئے شوخ آنکھوں کی مسکراہٹ میں جو لوک رس سے پیدا ہوتی ہے ہمیں سرائے سدھو کی وجۂ تسمیہ بتائی تھی۔


ٹکے لگے بادشاہ دے
تے سدھو دی سراں

ہیڈ سدھنائی کے پاس راوی کے کناروں پر لکشمن چونترہ کے شکستہ گھاٹ کے کھنڈر۔ اشنان کے بعد رام اور لکشمن جس جگہ راوی کے پانی سے باہر نکلے تھے وہاں دونوں کناروں پر رام چونترہ اور لکشمن چونترہ کے مندروں کے کھنڈر باقی ہیں۔ پیچھے جہاں سیتا میا کھڑی انہیں دیکھتی تھیں وہاں سیتا کُنڈ کا مندرہے۔ پاکستان بننے سے پہلے یہاں سالانہ میلہ لگتا تھا اور دور دور سے یاتری آتے تھے۔ تصویر بشکریہ وسیب ایکسپلورر
سرائے سدھو میں شیر شاہی مسجد
سرائے سدھو کی ایک بیٹھک

چناب کے پانیوں میں گرنے سے کچھ پہلے ایک آلکس میں بہتے راوی کی ہمسائیگی میں سرائے سدھو کی ایک بیٹھک تھی، نوٹس لیتا ہمہ تن گوش مانی تھا جب ماسٹر نسیم ہوشیارپوری حقے کی نےایک طرف کرکے سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور گویا ہوئے۔ خانیوال سے جو ریل کی پٹڑی فیصل آباد کو جاتی ہے، عبدالحکیم اور شورکوٹ کے بیچ ایک سٹیشن درکھانہ کے نام کا آتا ہے۔ جہاں ایکسپریس گاڑیاں نہیں رکتیں۔ آپ کو پتہ ہے بیٹا درکھانہ اصل میں دارخانہ کی بگڑی ہوئ شکل ہے۔ پسنجر ٹرینیں جبکہ وہ چلا کرتی تھیں تو ان کے مسافر جب ریلوے ٹکٹ پلیٹ فارم سے خریدتے تو ان قدیم چھپائی کے ٹکٹوں پر بھی نام دارخانہ ہی درج تھا۔ دارخانہ بیٹا اس لیے کہ 1857 کی جنگ آزادی کہ جو لہر پنجاب میں ابھری اس کے نتیجے میں انگریز سرکار نے پکڑ دھکڑ کے بعد ایک بڑی تعداد میں سرکار انگلشیہ کے باغیوں کو یہاں تختہ دار پر لٹکایا تھا۔ ایک بڑی تعداد میں لگائے گئے پھانسی کے تختوں اور ایک کثیر تعداد میں پھانسی لٹک جانے والے مجاہدوں کے صدقے اس جگہ کا نام دارخانہ پڑ گیا جو اب بگڑ کر درکھانہ ہو گیا ہے۔


پختہ عمر کے لوگوں کے لہجے میں ایک شکوہ شکایت در آتا ہے، مگر علم کے رس سے سیراب ماسٹر جی سرائے سدھو کی اس بیٹھک میں ایک دھیمے لہجے میں بہت سے راز فاش کرتے گئے۔ بیٹا جی نور محمد قریشی ایڈووکیٹ کی ’تُو صاحبِ منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی‘ یا پھر حکیم سید نوازش علی کی ’تذکرۂ رؤسائے پنجاب‘ جو سر لیپل گریفن کی دی پنجاب چیفس کا ترجمہ ہے پڑھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ بہاؤالدین زکریا کے سجادہ نشین نے اپنے مریدوں کی فوج لے کر انگریز کے باغی سپاہیوں کا قتل کیا۔ شاہ محمود قریشی کو جنگ آزادی میں انگریزوں کا ساتھ دینے اور باغیوں کی مخبری، گرفتاری اور قتل کردینے کے عوض نقد رقم،جاگیر اور باغوں سے فیض یاب کیا گیا۔ ہمارے سابقہ وزیر خارجہ اپنے ہمنام جد کی موجودہ پشت میں سے ہیں۔


ڈاکٹر اے ڈی اعجاز کی کال بلیندی ہمیں بتاتی ہے کہ ملتان میں حضرت بہاؤ الدین ذکریا کی درگاہ کے سجادہ نشین قریشیوں نے کھلم کھلا مجاہدوں کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا۔ بڈھن شاہ کا پوتا اور مخدوم حسن شاہ کا بیٹا مخدوم شاہ محمود کرنل ہملٹن کے دستوں کے ساتھ مل کر مجاہدوں کے خلاف لڑا۔ پاکپتن میں بابا فرید الدین گنج شکر کے متولی تو پسِ پردہ رہے مگر ان کی شہ پر پاکپتن کے مرید انگریزوں کے ساتھ مل گئے۔ گنجی بار کے مجاہدوں نے جب اپنے روحانی پیروں اور ان کے مریدین کو اپنے خلاف صف آراء دیکھا تو انہوں نے دل چھوڑ دیئے۔

لودھراں جنکشن سے ریل کی ایک پٹڑی کہروڑپکا کا راستہ پکڑتی ہے۔ اس پر عارفوالہ سے آگے جبکہ آپکا منہ ول پاکپتن شریف ہو تو اگلا سٹیشن مراد چشتی کے نام کا آتا ہے۔ بہت برس نہیں بیتے کہ ہمارا چک نمبر 3/EB جو اب سلسلۂ چشتیہ سے بیعت ہو گیا ہے اپنےاصل نام چک داتار سنگھ سے جانا جاتا تھا۔ رائے بہادر سردار داتار سنگھ ڈسٹرکٹ بورڈ منٹگمری کا وائس چیئرمین رہا اور انگریز سرکار نے لودھراں پاکپتن لائن پر ایک ریلوے سٹیشن آپکے نام کیا۔ سرکارے دربارے اس پہنچ کی بنیادی وجہ تھے آپ کے دادا حضور، پاکپتن کی تحصیل کلیانہ کے باسی سردار ماچھی سنگھ اروڑا۔ گنجی بار میں پاکپتن کے علاقے میں 1857 کی جنگِ آزادی کے مجاہدوں کی مخبری ماچھی سنگھ اروڑا نے کی اور بدلے میں انعام و اکرام سے فیض یاب ہوا۔ اس کے بیٹے سردار حکم سنگھ کو ذیلداری انعام میں ملی اور پوتے داتار سنگھ کو برانچ لائن پر ایک گاؤں اور اپنے نام کا ریلوے سٹیشن۔


عارفوالہ سے جنوب کی سمت برلبِ ستلج نیلی بار کے پڑوس میں ایک گاؤں ٹبی لعل بیگ کے نام کاآتا ہے۔ یہاں ایک مزار کا کتبہ ممبر ویسٹ پاکستان اسمبلی پیر غلام علی چشتی کو یاد کرتا ہے۔ آپکے والد گرامی پیر گلاب علی چشتی تھے، انہوں نے ستلج کے اس پار ریاست بہاولپور میں جاری جنگِ آزادی کے مجاہدوں کی سرگرمیوں کی انگریز سرکار کو مخبری کا بیڑا اُٹھایا اور اس کارِ خیر کو خوب نبھایا۔ انعام و اکرام کے علاوہ ان کا ایک سپوت پیر اللہ یار چشتی ذیلدار بنایا گیا۔ ٹبی لعل بیگ سے سیاسی شطرنج کی بساط پر آج کی تاریخ میں جو چشتی پیادے بیٹھے ہیں وہ اپنے جد امجد پیر گلاب علی چشتی کی سرکارِ انگلشیہ کی چاکری اور وطن سے غداری کی دین ہے۔


پھر کمالیہ کے لکھویرے کھرلوں میں رئیس سعادت یار خان کا بیٹا رائے بہادر سرفراز خان کھرل ہے۔ رائے بہادر کا خطاب، خلعت اور جاگیر انگریزوں کی دین ہے جب سرفراز کھرل نے قرآن پر اٹھائے حلف سے روگردانی کرتے ہوئے گوگیرے کے انگریزوں کو رائے احمد خان کی سرداری میں راوی کے راٹھوں کے اکٹھ کی خبر دی تھی۔ گشکوری کا دھاڑا سنگھ اور گوگیرے کا کھیم سنگھ ہے۔ ان دونوں کی مخبری اور نشاندہی پر نورے دی ڈل میں رائے احمد اور سارنگ شہید کیے گئے۔ گشکوری کی نمبرداری اور منٹگمری کے ڈسٹرکٹ بورڈ کی نائب چیئرمینی رائے احمد خان کی جان کی قیمت ٹھہریں۔ پھر نگڑیال ہیں، پاکپتن کے مخدوم ہیں اور سرگانے ہیں جو انگریزوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سعید بھٹا کی نابر کہانی اور تراب الحسن سرگانہ کی عرق ریز کاوش انگریزوں کے خلاف پنجاب میں مزاحمتی تحریکیں، رائے احمد اور گنجی بار کے مجاہدوں کی داستانیں کہتے کہتے وطن کے ناموش فروشوں کا بھی ذکر کرتی ہیں۔ لالہ صحرائی جب انگریزوں کوللکارنے والے جیکب آباد کے دلمراد کھوسہ کی ناقدری دیکھتا ہے تو بے اختیار رائے احمد کھرل کا بھی دکھڑا روتا ہے کہ رائے نتھو کے بیٹے احمد کھرل کی شجاعت کی داستانیں تو دادا پھوگی کے صدقے واروں اور ڈھولوں میں گائی گئیں تو ہماری کتابوں اور ہمارے ورثے سے کیسے گم ہوگئیں۔ وہ سچ کہتا ہے کہ انگریزوں کا ساتھ دینے والے قریشی، گیلانی اورآستانوں مزاروں کے مخدوم اور سجادہ نشین کس منہ سے 21 ستمبر کو رائے احمد کھرل کا یوم شہادت منائیں کہ یہ ان میر جعفروں اور میر صادقوں کی اولادیں ہیں جو گشکوری کے محاذ پر انگریزوں کے ساتھ کھڑے تھے اور جن کے جدامجد نے رائے احمد اور دوسرے باغیوں کے سر کی جو قیمت وصول کی اسی کا سود در سود کھاتے آج وہ ایوانوں کی کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور ہماری قسمت کے فیصلے کرتے ہیں ۔


احمد خان شہید ہویا، خلقت نوں تَلِیوں لگی چوٹیوں نکلی اے مار بھڑکارے
فقیر آہندا اے: میں اوہنوں انکھی نہیں سمجھدا، جیہڑا احمد خان دا دُکھ وسارے

سرائے سدھو کی بیٹھک میں ماسٹر نسیم ہوشیارپوری
ڈاکٹر سیف الرحمٰن ڈار کی جی ٹی روڈ کی کارواں سراؤں کے مسودے کی کاپی پر لیے گئے کچھ نوٹس
خانیوال ۔ شورکوٹ ریلوے لائن پر درکھانا ریلوے سٹیشن ۔ گوگل فوٹوز
لودھراں ۔ رائےونڈ لائن پر عارفوالہ اور پاکپتن کے بیچ مراد چشتی ریلوے سٹیشن ۔ گوگل فوٹوز
عارفوالہ کے پاس ٹبی لعل بیگ میں ایک مزار کا کتبہ ۔ گوگل فوٹوز

ایک بعد کے دنوں کی دوپہر کا ذکر ہے جب میں اپنے جڑانوالے سے سیدوالہ کا مسافر تھا تو راوی کے پتن سے کچھ پہلے بائیں ہاتھ قدیمی قبرستان کے ایک اندھے کنویں پر کوے شور مچاتے تھے اور مجھے آگے بڑھ کر دیکھنے سے روکتے تھے۔ ہمارے محمد حسن معراج بتاتے ہیں کہ 1857 کی جنگ میں مقامی لوگوں کی مزاحمت کی پاداش میں اسی قبرستان میں ایک کنویں پر پھانسی گھاٹ بنایا گیا تھا جہاں ’آزاد منش انسانوں کو تختۂ دار کے حوالے کر کے دنیا سے آزاد کیا جاتا رہا۔‘

آزادی کی جنگ میں شہید ہوجانے والوں کے خاندانوں اور قید ہوجانے والے مجاہدوں نے بہت بھاری قیمت چکائی۔ شہیدوں کے گھر اور فصلیں جلادی گئیں، ان کی جائیدادیں بحقِ سرکار ضبط ہوگئیں۔ قیدیوں کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا، توپوں کے دہانوں سے باندھ کر اُڑا دیا گیا اور موت سے بچ جانے والوں کو کالے پانیوں کی سزا سنائی گئی۔ برکلے کا سر اتارنے والا مراد فتیانہ اور کوڑے شاہ کی لڑائی میں اپنے جوہر دکھانے والا موکھا ویہنیوال ان قیدیوں میں سے تھے جو جزائرِ انڈیمان کے کالے سفر پر بھیج دیئے گئے۔ گنجی بارکی واریں بتاتی ہیں کہ ان آزاد منش روحوں نے کھلے سمندر میں ڈولتے جہاز سے راہِ فرار اختیار کی اور واپس اپنے علاقوں میں آگئے تھے۔ یہ کہانی کسی اور دن پر اُٹھا رکھتے ہیں۔ فی الحال اتنا کہیں گے کہ انگریز سرکار اتنی دیالو ضرور تھی کہ جن شہیدوں کی اولادوں نے سرکار سے باقاعدہ معافی مانگ لی وہ حکومتی عتاب کا نشانہ بننے سے بچ رہے۔ اب اس کا کیا کریں کہ گوروں سے معافی مانگنے والوں میں رائے احمد خان کھرل کے بیٹے اور رائے نتھو کے پوترے، جھامرہ کے مامد خان کا نام بھی بولتا ہے ۔۔۔

share this article
author bio

Imran Saeed

I am a teller of old tales. History, folklore, military, and more. Mostly covering Pakistan, my homeland, but also the Great White North, where I am currently settled.
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments