10

اگوکی کی کہانی میں محمد حسین کی کہانی
گریسی لائن سے فرار
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ تھا۔ فوج سے ریٹائرمنٹ لے لینے کے فوری بعد والا ہنی مون چل رہا تھا اور میں قبل از ریٹائرمنٹ چُھٹی کے دنوں کی گنتی گریسی لائن چکلالہ کے آفیسر میس میں پوری کررہا تھا۔ ایک ریٹائرمنٹ کی کسلمندی کو روزوں کی سُستی نے دو آتشہ کردیا تھا کہ ایک دوپہر لاڈلا بن بلایا مہمان بن آدھمکا۔ سو سو کے ہم ویسے ہی تھک چکے تھے اور ہمیں وہی روزوں کا ٹریڈ مارک مسئلہ درپیش تھا کہ ظہر سے افطار تک کا پہاڑ جیسا دن کاٹنےکیا حیلہ کیا جائے۔ لاڈلے نے گوجر خان تک کی ڈرائیو کا مشورہ دیا اور میرے دل کے نہاں خانے میں اچانک ایک پرانا بہت محبوب نام گونجا، سوار محمد حسین شہید نشانِ حیدر۔ میں نے ابھی تک شہید کا مدفن نہیں دیکھا تھا بس سُن رکھا تھا کہ گوجر خان کے نواح کے کسی گاؤں میں ہے۔
تو صاحبو رمضان کی اس مبارک دوپہر ہم گوجر خان کے مسافر ہوئے اور لاڈلے نے ایک تیسرا ہم سفر تجویز کیا۔ راولپنڈی سے نکلنے سے پہلے ہم نے چکلالہ گیریژن کے ٹرانسپورٹ ونگ کے میس سے ایک فلائٹ لیفٹیننٹ کو صرف اس بنا پر اُٹھایا کہ لاڈلے کی معلومات کے مطابق اس کے فون کے کیمرے کا رزلٹ ہم دونوں کے فون سے بہت بہتر تھا۔ اور صاحب اُٹھایا ہم نے کچھ یوں بھی لکھا کہ واقعتاً ایسا ہی ہوا تھا۔ ہم نے کہا گوجر خان چلنا ہے فون ساتھ رکھ لو۔ آگے سے نہ کوئی سوال نہ کوئی تفصیل اور گاڑی میں ہم دو سے تین ہوگئے۔ لاڈلے کی وساطت سے میری ’کبوم‘ سے یہ پہلی ملاقات اور ایک دلدار و پائیدار یارانے کی ابتدا تھی۔ ایک اچانک بن جانے والے پروگرام کی عملی تفسیر میں راولپنڈی سے ایک سالخوردہ ہنڈا سٹی گوجر خان کو رواں دواں تھی اور ہمارے پاس کوئی تفصیل، راستے کا کوئی نشان تک نہ تھا کہ ہمارا سپاہی کہاں کس گاؤں کے قبرستان میں سپردِ خاک ہے۔
یہاں سے ہم واپس ماضی میں اپنے اگوکی کو پلٹتے ہیں۔ اگوکی کی کہانی کے پچھلے حصے میں ہمارا پڑاؤ بڑی منہاساں میں تھا جہاں کے سرکاری سکول کے ایک کمرے میں بنے عارضی انفارمیشن روم میں جنگی تیاریوں کی صعوبتوں سے اکتائے جوانوں کی تفریح طبع کے لیے ایک پروپرائٹر بیٹری کمانڈر میجر نقوی کی کاوشوں سے وی سی آر پر مولا جٹ دکھانے کی تیاریاں عروج پر تھیں۔
یہاں سے ہم واپس ماضی میں اپنے اگوکی کو پلٹتے ہیں۔ اگوکی کی کہانی کے پچھلے حصے میں ہمارا پڑاؤ بڑی منہاساں میں تھا جہاں کے سرکاری سکول کے ایک کمرے میں بنے عارضی انفارمیشن روم میں جنگی تیاریوں کی صعوبتوں سے اکتائے جوانوں کی تفریح طبع کے لیے ایک پروپرائٹر بیٹری کمانڈر میجر نقوی کی کاوشوں سے وی سی آر پر مولا جٹ دکھانے کی تیاریاں عروج پر تھیں۔
ہم نے سوچ رکھا تھا کہ اگوکی کی کہانی کی اگلی قسط کو بڑی منہاساں میں چلی سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی مولا جٹ کے سِر صدقے اور پاس ہی بڑا پنڈ لوہٹیاں کے جماندرو برہاں دے سلطان کی نسبت سے فنونِ لطیفہ کی نزاکتوں کے نام کریں گے۔ مگر کچھ ایسا ہوا کہ دسمبر آن پہنچا اور اس کے ساتھ اکہتر میں لڑی پاک بھارت جنگ بھی۔ 10 دسمبر ٹوئنٹی لانسرز حیدری کے سوار محمد حسین کا یومِ شہادت ہے۔ ہم ظفروال ۔ شکرگڑھ کی انہی زمینوں میں ہوں جہاں محمد حسین دادِ شجاعت دیتا ہوا شہادت کے مرتبے پر فائز ہوا اور اپنے سپاہی کو یاد نہ کریں ایسا کیسے ممکن ہے۔
ہرڑ خورد کی ٹیکری
کسی دانا کا قول ہے کہ خود جان دینے کے لیے کسی خاص قابلیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کسی دوسرے کو لڑ مرنے پر آمادہ کرنا اصل مہارت ہے۔ ایک معمولی سپاہی اور جرنیل میں یہی فرق ہے۔ اس قول اور اس بحث سے قطعِ نظر کہ کہنے والا دانا تھا بھی یا نہیں، اس میں کوئی کلام نہیں کہ آج کے محاذِ جنگ میں جہاں لوگ عبداللہ حسین کے لفظوں میں چوہے کی موت مررہے ہوتے ہیں (لوگ لاکھ لڑائی کو رومانوی رنگ دیں مگر تلخ حقیقت یہی ہے) اور ہر دوسرا شخص اپنے حصے کی گولی آنے تک کی ساعت میں زندہ ہے ایک غیر معمولی بہادری دکھانے کی استعداد و استطاعت تفویض کی گئی ذمہ داری سے ایک راست تناسب میں جڑی ہے۔ محاذ پر لڑتے ایک افسر کے مقابلے میں ایک سپاہی کے لیے دفاع یا حملے میں جان پرکھیلتے سمے کوئی کارہائے نمایاں انجام دینے کا سکوپ بہت محدود ہے۔ ایسے میں اگر ایک لانس نائیک یا سپاہی بہادری کا سب سے بڑا اعزاز اپنے نام کروالیں تو مان لیجیے کہ وقت پڑنے پر انہوں نے مافوق العقل شجاعت کے جوہر دکھائے ہیں۔ پاک فوج میں آج تک نشانِ حیدر کا اعزاز اپنے نام کروانے کا اعزاز صرف ایک لانس نائیک اور ایک سپاہی کو حاصل ہوا ہے۔ لانس نائیک محفوظ شہید کی کہانی ایک اور دن کہیں گے، آج کا قصہ سپاہی محمد حسین شہید نشانِ حیدر کے نام کرتے ہیں۔
بڑی منہاساں سے مشرق کی سمت ایک روڈ ڈھیلرہ سے گزر کر آگے چک امرو تک جاتی ہے۔ چک امرو جو نارووال ۔ شکرگڑھ کی متروک ریلوے لائن پر بارڈر کے بالکل نزدیک آخری ریلوے سٹیشن ہے۔ بڑی منہاساں کی اس سڑک پر ڈھیلرہ سے کچھ آگے ہرڑ خورد گاؤں میں ایک اونچی ٹیکری ہے۔ اگر آپ آج کی تاریخ میں ہرڑ خورد کے مسافر ہیں تو اس ٹیکری پر ایک یادگار آپ کو بتاتی ہے کہ یہ سوار محمد حسین کی جائے شہادت ہے۔ 2017 میں بنی یہ یادگار 1999 میں یہاں نہیں تھی۔ اپنے ایم ٹی حوالدار ظفر کی شاگردی میں ڈرائیونگ سیکھتے پاپا بیٹری کے جی پی او کی جیپ بہت دفعہ بڑی منہاساں سے شکرگڑھ کے روٹ پر ہرڑ خورد کی ٹیکری کے پاس سے گزری ہوگی مگر تب ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہاں ہمارے ایک محبوب نشانِ حیدر نے شہادت کا رتبہ پایا تھا۔
بسنتر کی جنگ ۔ 1971
محمد حسین 20 لانسرز میں ڈرائیورٹریڈ کا سپاہی تھا (رسالے کی یونٹ میں سپاہی کو سوار کہتے ہیں)۔ ٹینک ڈرائیوربھی نہیں بلکہ ڈاج گاڑی کا ڈرائیور۔ ڈاج یوں سمجھ لیجیے کہ جیپ اور ٹرک کے درمیان کی گاڑی ہے، بلکہ گاڑی ہونے کا وہم سا ہے۔ زمانۂ امن میں یونٹوں میں انتظامی کارروائیوں کے لیے مختص ایسی ہی گاڑی ایڈم ڈاج ہوتی ہے جسے اہلِ نظر و دانش انتظامی دھوکہ کہتے ہیں۔ تو صاحبو محمد حسین ڈاج کا ڈرائیور تھا جس کے ذمے دشمن سے برسرِ پیکار یونٹ کے انتظامی علاقے تک ایمونیشن (گولہ بارود) کی ترسیل کا کام تھا، اگلے مورچوں تک اس کی رسائی نہ تھی۔ محمد حسین کے دل میں بھی ایک گرجتے برستے محاذ کی گرما گرمی میں اپنا حصہ ڈالنے کی خواہش کروٹیں بدلتی تھی اور ایک بے اختیار کردینے والے لمحے میں اس نے اپنے بنیادی فرض کی ادائیگی سے بچ جانے والے وقت میں رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات اگلے مورچوں کے لیے پیش کردی تھیں۔ قدرت نے ہمارے ہر لحظہ ہنستے مسکراتے چاق و چوبند سپاہی کو ایک خاص کام کے لیے چُن لیا تھا۔
پینسٹھ کی جنگ کی تجدید کرتے اکہتر میں بھی ہندوستانی ون کور نے شکرگڑھ بلج کے پھوڑے نما ابھار پر حملہ کردیا تھا۔ رسالے کے بریگیڈوں کی ہمراہی میں دو انفنٹری ڈویژنوں نے شمال اور مشرق کی سمتوں سے دھاوا بول دیا۔ شمال کی سمت سے وہ ظفروال پہنچنے کے خواہش مند تھے جبکہ مشرقی سمت سے انکا ہدف شکر گڑھ تھا۔ ظفروال ۔ شکرگڑھ سے شمال کی سمت پاکستانی چنگیز فورس دفاع سے آگے کی جنگ لڑ رہی تھی۔ محمد حسین کی پلٹن 20 لانسرز اسی چنگیز فورس کا حصہ تھی۔ شرمن اور ایم 36 بی ٹو ٹینکوں سے لیس اس پلٹن کے ذمہ ڈیگھ ندی کے اِس پار ظفروال کی طرف پیش قدمی کرتے دشمن کو چیلنج کرتے ہوئے ہر ممکن تاخیر ان پر مسلط کرنی تھی۔ پاکستانی 13 پنجاب کو مدد فراہم کرتے 20 لانسرز کے کمانڈنگ افسر لیفٹیننٹ کرنل طفیل محمد نے بڑی منہاساں ، ڈھیلرہ اور ہرڑ کے مقام پر تین تاخیری پوزیشنیں قائم کی تھیں۔
میجر جنرل پربھو کی قیادت میں ہندوستانی 39 ڈویژن 5/6 دسمبر کی رات شکر گڑھ پر قبضے کی نیت سے بین الاقوامی سرحد پار کر گیا۔ سوار محمد حسین میجر اکرم کے سکواڈرن میں تھا۔ اس سکواڈرن کے اوپر 7/8 دسمبر کی رات ون ڈوگرہ رجمنٹ حملہ آور ہوئی مگر ایک سخت مزاحمت کے سامنے پسپا ہو گئی۔ ہندوستانی ون مہر بٹالین اسی حملے کی تجدید کرتی 9/10 دسمبر کی رات ہرڑ پر حملہ آور ہوگی اور وہ دن محمد حسین کا آخری دن ہوگا، مگر ابھی 20 لانسرز کا یہ سوار زندہ تھا اور دونوں حملوں کے درمیانی وقفے میں محمد حسین نے دلیری کے کئی کارہائے نمایاں انجام دیے۔
گجگال کے محاذ نے اسے بارودی سرنگیں لگانے، دشمن کے حملوں کے دوران بے خطر فائر درست کروانے اور لڑاکا گشت میں جانے والے ہراول دستوں میں دیکھا۔ سکواڈرن کمانڈر نے محمد حسین کی فرض کی ادائیگی سے کہیں بڑھ کر ان دلیر کارروائیوں کے عوض اس کے لیے بہادری کے اعزاز کی سفارش کردی تھی۔ مگر ابھی محمد حسین کا دن آنا تھا۔ ابھی تو مسکراتے محمد حسین کی رگوں میں زندگی لہو بن کے دوڑتی تھی۔
دس دسمبر کا دن طلوع ہوا تو ہرڑ گاؤں پر ایک تازہ دم ہندوستانی حملے کی خبر لایا۔ اس حملے میں 20 لانسرز کے قدم ہرڑ گاؤں سے اُکھڑ گئے۔ رجمنٹ کا اُٹھایا دوسرا نقصان زیادہ بھاری تھا۔ حملے کے دوران ہرڑ خورد کی ٹیکری سے ٹینکوں کو ہدف دکھاتا محمد حسین دشمن کے ٹینک کی مشین گن کا برسٹ سینے میں پرو شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگیا۔ محاذ پر ایک جوش میں بھاگتے دوڑتے نعرے بلند کرتے اس کے چہرے پر سجی ایک کھلی کھلی مسکراہٹ محمد حسین کی شناخت بن گئی تھی۔ ہمارے سپاہی کا جسد خاکی اٹھانے والے نائب رسالدارعلی نواب اورلانس دفعدارعبدالرحمٰن نے دیکھا کہ شہادت کے بعد محمد حسین کی شناختی علامت اس کے ہونٹوں پر امر ہوگئی تھی۔ وطن کی حفاظت میں فرض کی ادائیگی سے کہیں بڑھ کر زندگی کو خطرے میں ڈالنے اور انجام کار جان کی بازی لگانے پر سوار محمد حسین کو نشانِ حیدر کا اعزاز دیا گیا۔ آپ بہادری کا اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کرنے والے پاک فوج کے واحد سپاہی ہیں۔
چنگیز فورس میں شامل یونٹوں بشمول 20 لانسرز کی تاخیری لڑائی نے ہندوستانی سپاہ کا شکرگڑھ پہنچنے کا سپنا سپنا ہی رہنے دیا۔ 20 لانسرز کو اس جنگ میں بیٹل آنر شکرگڑھ 71 عطا ہوا اور اپنےسپوت محمد حسین کے نشانِ حیدر کی نسبت سے یونٹ اب خود کو حیدری بٹالین بلاتی ہے۔ شکرگڑھ کے سب سے نزدیک پہنچنے والی ہندوستانی 4 گرینیڈیئرز کی ایک کمپنی تھی جس کی قیادت میجر چوہدری کررہے تھے۔ 13/14 مارچ کی رات ایک برق رفتاری میں گاؤں دین پور خورد پر قبضہ کرلینے والی اس کمپنی کا رابطہ باقی سپاہ سے کٹ گیا۔ نرغے میں آنے کے باوجود 14 دسمبر کے دن تو یہ کمپنی ثابت قدم رہی مگر جانی نقصان کے سبب اسی شام باقی بچ جانے والے ہندوستانی سپاہی میجر چوہدری سمیت قیدی بنالیے گئے۔ پاکستانی 19 فرنٹیئر فورس ’پِفَر ٹائیگرز‘ نے شکر گڑھ کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس جانباز یونٹ نے 4 گرینیڈیئرز اور 3/9 گورکھا رائفلز کے حملوں کو پسپا کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر ہتھیار اور جنگی قیدی قابو کیے۔
ڈھوک پیر بخش کا نشانِ حیدر
سوار محمد حسین کی شہادت کے پانچ سالوں بعد فروری 1977 میں ایوانِ صدر میں منعقدہ ایک تقریب میں نشانِ حیدر کا اعزاز عطا ہوا۔ صدرِ پاکستان فضل الہٰی چودھری سے نشانِ حیدر سوار محمد حسین کی اہلیہ کے ساتھ آئے ان کے بیٹے منورحسین نے وصول کیا۔ منور سوار محمد حسین کی شہادت والے سال پیدا ہوا تھا۔ ہمارے شہید نے اس دنیا میں اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا تھا۔
1971 کی جنگ کےکچھ ہفتوں بعد کا ذکر ہے کہ پوٹھوہار کے گاؤں موہڑہ حیات کا کسان روز علی پاکستان کے سرحدی شہر شکرگڑھ پہنچا۔ یہاں ایک فوجی قبرستان میں اس کے اکلوتے بیٹے محمد حسین کو امانتاً دفن کیا گیا تھا۔ روزعلی اپنے گاؤں کےقبرستان میں دوبارہ تدفین کے لیے اپنے شہید بیٹے کا جسد خاکی لینے آیا تھا۔ تابوت کے ساتھ حوالے کیے گئے شہید کے اثاثہ جات میں گھر والوں کو لکھا ایک خط اور پانچ سو روپے تھے۔ خط میں شہید نے لکھا تھا کہ ان پیسوں میں سے ایک سو روپے سے اس کے ذمے ایک قرض ادا کردیا جائے۔ شہادت کے وقت محمد حسین کی دو سال کی ایک بیٹی تھی اور تین ماہ کا ایک بیٹا۔ شہید محاذ پر برسر پیکار ہونے کے باعث اس دنیا میں اپنے بیٹے منورحسین سے نہ مل سکا. منور حسین سے رمضان المبارک کی اس سہ پہر ہماری ملاقات ہوئی تھی، ہم جو اس کے شہید والد کےمزار پر فاتحہ کو آئے تھے۔
رمضان المبارک کی اس دوپہر گریسی لائن چکلالہ سے چلی تین پنڈی والوں کی یہ ٹولی گوجر خان پہنچ کر چاچا کمپس کی محتاج ہوگئی تھی۔ وہاں پہنچ کر ہمیں پتہ چلا کہ ہمیں واپس چکوال روڈ کی طرف جاتلی کے بس اڈے کو پلٹنا ہے۔ جی ٹی روڈ پر ایک یو ٹرن لینے کے مقابلے میں ہم نے گوجر خان کے علاقائی راستوں پر گاڑی دوڑانےکو ترجیح دی۔ دو ایک دفعہ راستہ بھولنے اور ایک غیر معروف پٹرول پمپ سے ایک غیر معروف طریقے سے فیول بھروانے کے بعد ہم ایک لمبائی میں بل کھاتے گوجرخان سے براستہ گلیانہ ۔ میانہ موہڑہ ۔ دولتالہ بالآخر مندرہ ۔ چکوال روڈ پر جاتلی بس اڈے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ جاتلی سے ایک کچا پکا راستہ موہڑہ حیات کو جاتا ہے جس کے پہلو میں ایک قبرستان میں ہمارے شہید کا مزار ہے۔ محمد حسین کے اعزاز میں ڈھوک پیر بخش کا نام اب ڈھوک سوار محمد حسین نشانِ حیدر ہے۔

شہید کو اعزازی سلام دے لینے کے بعد ہم فاتحہ کے لیے با ادب ہوئے تو ساتھ کے گھر سے ایک نوجوان ہماری خبر کو آیا۔ منور حسین کے چہرے میں اپنے والد محمد حسین کی شباہت تھی اور جب اس نے مسکراتے ہوئے افطار تک رُک جانے پر اصرار کیا تو اس مسکراہٹ میں سوار محمد حسین کی دلآویز مسکراہٹ کی جھلک تھی، جس کا ہار ہونٹوں پر سجا ہمارا ساتواں جانباز شکرگڑھ کی قربت میں ہرڑ خورد کی ایک اونچی ٹیکری سے اپنے وطن پر نثار ہو گیا تھا۔
11

اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور ہمارے سپہ سالار
میرے عزیز ہم وطنو
اکتوبر1999 کی ایک معتدل شام میرے عزیز ہم وطنو والی تقریر اگوکی میں سنی۔ میں ایک نوآموز لفٹین تھا اور عباسیہ کے قائم مقام ایڈجوٹنٹ کے فرائض انجام دے رہاتھا۔ شام سے غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر یونٹ گارڈ سٹینڈ ٹو تھی اور میں آفیسر آن ڈیوٹی۔ رات گئے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک کلف دار تقریر میں کمانڈو وردی پہنے اتنے ہی کلف دار لہجے میں چیف کو کہتے سنا کہ
Your armed forces have never and shall never let you down
تو ہم نے بھی ہاتھ میں پکڑی ملٹری اسٹک اپنی خاکی پتلون کی کلف زدہ کریز پر مارتے ہوئے باآوازِبلند انشاء اللہ کہا تھا۔
اگلے دن اسی سرکاری ٹی وی پر نواز حکومت سے جان چھوٹنے پرلوگوں کومٹھائیاں بانٹتے دیکھا تو وہ سطریں یاد آئیں جن میں اس قوم پر ترس کھانے کا ذکر ہے جو بینڈ باجے کی ایک جیسی ماتمی دھن میں جانے والوں کی خوشی اور آنے والوں کا سواگت کرتی ہے۔ ایک نا تجربہ کار لیفٹیننٹ نے فرطِ جذبات میں خلیل جبران کے قولِ زرّیں کا یک صفحی پرنٹ بھی نکلوا لیا تھا کہ فریم کروا کے ایڈجوٹنٹ آفس میں لگایا جائے مگر ایک تجربہ کار کمانڈنگ آفیسر سے اجازت نہ ملی۔
1999 کے اکتوبر سےچند ماہ پہلےاگوکی میں کھینچی ایک لاابالی کھلنڈرے افسر کی یہ تصویر ناچیز کی ہے جس میں ہم عباسیہ کے افسر میس کے لان کے ایک کونے میں بنی مِنی آبشار کے ڈھانچے پر کھڑے ہیں۔ ہماری مسکراہٹ کی وجہ یہ راکری ہے جو ہماری ماہرانہ سرپرستی میں یونٹ کے مستریوں نے تعمیر کی تھی۔ کچھ دن پہلے ہم میجر نقوی کے ساتھ سمبڑیال کی ہمسائیگی میں ایک سپورٹس فیکٹری کا آفس دیکھ کر آئے تھے جہاں اسی طرز کی ایک آبشار بنی تھی۔ صاحبو فوج چھاپے پر چلتی ہے سو ہماری چھاپہ زدہ ہدایات پر تغاریاں حرکت میں آئیں اور ہم خود خلافِ توقع اس آبشار نما راکری کی حسین شکل نکلنے پر دنگ رہ گئے۔ یونٹ کے فنکار مستریوں کے ہاتھوں تکمیل پائے اس عمارتی ڈھانچے کو میجر نقوی کی ماہرانہ نظر نے فنشنگ ٹچز دیے تھے، مگر نام ہمارا بولتا تھا کہ یونٹ میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں یہ ہمارا پراجیکٹ تھا۔
عباسیہ اپنا اگلا کرنل آف دی رجمنٹ منتخب کرنے جارہی تھی اور اسی کی تیاریاں جاری تھیں۔ اگوکی میں واقع یونٹ کا منہ ماتھا بہتر بنانے، جتنا کہ اگوکی کی جغرافیائی و ثقافتی حدود میں منہ ماتھا بہتر بنانا ممکن تھا، پر یونٹ افسر کمر بستہ تھے۔ ہماری شاگردانہ تربیت سے پرے میجر نقوی اس تقریب کے حوالے سے یونٹ کی شیلڈ ڈیزائن کرنے پر بھی مامور تھے۔ مغل منی ایچرز کی طرز پر ایک آراستہ بارڈر سے ڈیزائن کی گئی شیلڈ اپنی مثال آپ تھی۔ افسوس کہ وہ شیلڈ ہمارے گناہوں کے اس بوجھ کا حصہ ہے جو ہم کینیڈا ہجرت کرتے وقت کراچی میں چھوڑ آئے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جیسے ہی ہمارے ہاتھ اس مغلیہ طرز کی نوابی شیلڈ کو لگے ہم اپنے پڑھنے والوں سے اس کی تصویر ضرور شیئرکریں گے۔
اگوکی میں عباسیہ کی کچھار میں منعقد ہونے والی یہ تقریب ہر لحاظ سے ایک گرینڈ فنکشن تھا۔ کرنل آف دی رجمنٹ کی اعزازی پوسٹ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اقبال سے انہی کے سپوت بریگیڈیئر جاوید اقبال کے کندھوں پر سجنے والی تھی۔ ایک لمبے چوڑے قدکاٹھ والے بریگیڈیئر جاوید اقبال کیریئر افسر تو تھے ہی، اسوقت ملٹری سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر بھی تھے۔ وزیرِ اعظم نوازشریف کا قرب اپنی جگہ، عباسیہ ان میں آنے والے دنوں میں یونٹ کا پہلا جرنیل دیکھ رہی تھی۔
اس مبارک موقعے کی مناسبت سے یونٹ کےافسروں اور جوانوں سے دونوں بریگیڈیئر صاحبان اور یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر کے خطاب کی تقاریر کا متن لکھنے کی ذمہ داری یونٹ ایڈجوٹنٹ کیپٹن بخاری کی تھی اور ہم اردو میں کسی حد تک درک رکھنے کے سبب انکی راست امداد میں تھے۔ اپنے مولانا حسرت موہانی اسیری کے دنوں کی یاد میں کہہ گئے تھے
ہے مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
صاحبو، ڈرافٹ در ڈرافٹ، اوپر نیچےتین عدد فوجی تقریروں کی کانٹ چھانٹ، تلفظ کی درست ادائیگی کے لیے درست اعراب کا باریک بینی سے اندراج اور نظرِ ثانی و ثلاثہ و چہارم کے دوران ان کی درستگی کا جائزہ۔ سچ بتائیں تو یہ خامہ فرسائی کسی چکی کی مشقت سے کم نہ تھی۔
عباسیہ کے کرنل آف دی رجمنٹ
خدا خدا کرکے تقریب کا دن بھی آیا جب سیالکوٹ اور گوجرانوالہ چھاؤنیوں کے سُرخ فیتوں اور تلوار و ڈھال سے مزین کندھوں نے اگوکی کو شرفِ میزبانی بخشا۔ ہمارے بریگیڈیئر صاحبان بھی تشریف لائے اور کرنل آف دی رجمنٹ کا عہدہ بخیر و خوبی منتقل ہوا۔ تقریب کے بعد ہماری آبشار کے جِلو میں اگوکی افسر میس کے لان میں بریگیڈیئر جاوید اقبال ملک کی یونٹ افسروں سے غیر رسمی ملاقات رہی۔ بریگیڈیئر صاحب سروس ڈریس کے کالر کی اوپری ہُک کھول کر کچھ بے تکلف سے ہو گئے۔ صاحبو ایک جونیئر لفٹین ایک رشک کے عالم میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ اقبال کے چہرے کی فخریہ مسکراہٹ اور انکے حاضر سروس بیٹے کی ڈیشنگ گفتگو سُنا کیا۔
کسے معلوم تھا کہ کچھ ہی دنوں میں ملکی صورتحال ایک قلابازی کھائے گی اور بریگیڈیئر صاحب لکیر کے اُس طرف کھڑے ہوں گے۔ 12 اکتوبر کی اس شام جب شہرِ اقتدارکے پڑوس سے ٹرپل ون بریگیڈ کے اربابِ اختیار وزیرِ اعظم اور ٹیلیویژن سٹیشن کو تحویل میں لینے پہنچے تو بریگیڈیئر جاوید اقبال ملک کا ریوالور آئینِ پاکستان کی حفاظت کی خاطر بلند ہوگیا۔ اٹک جیل کی کال کوٹھڑیوں کےباسیوں میں ایک حاضر سروس فوجی کا اضافہ ہوگیا اور جب کچھ نہ بن پڑا تو ایک پریشانی کے عالم میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ اقبال اگوکی میں اسی عباسیہ کے دفتروں میں آئے جہاں کچھ دن پہلے ایک اعزازی تقریب منعقد ہوئی تھی۔
یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر کے پاس تسلی کے چند الفاظ کے علاوہ بریگیڈیئر صاحب کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ یونٹ کے افسروں کا مین حیث البٹالین اس پر اتفاق تھا کہ بریگیڈیئر جاوید نے بے وقوفانہ حد تک صورتحال کا غلط تخمینہ لگایا اور اب اس کا ٹھیک خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ آپ سے جھوٹ کیوں بولیں ہمارا اپنا بھی یہی نکتۂ نظر تھا۔ دنیا کی ریت ہے جو لوگ وقت پڑنے پر تاریخ کی درست سمت کھڑے ہوں وہ اس کی بھاری قیمت ادا کرتے ہیں۔ بریگیڈیئر جاوید اقبال اسی رینک میں جبری ریٹائر کردیئے گئے۔ یونٹ کے جس کمانڈنگ افسر کا خیال تھا کہ کرنل آف دی رجمنٹ کی غلطی نے یونٹ کو ایک متوقع جنرل افسر سے محروم کردیا وہ خود ایک کیرئیر افسر تھے۔ کرنل رانا بہت بعد میں جبکہ وہ بریگیڈیئر رانا تھے اور پاکستان ملٹری اکیڈیمی کے ڈپٹی کمانڈنٹ تھے توپخانے کے ہی ایک جنرل کی ذاتی چپقلش کا شکار ہو کر اسی رینک میں ریٹائر ہوگئے اور ایک مرتبہ پھر عباسیہ کو ایک متوقع جرنیل سے محروم کرگئے۔ مگر وہ ایک الگ قصہ ہے۔


1999 کے اکتوبر میں واپس آتے ہیں۔ ملک پر اب ایک آمر کی حکومت تھی اور ہم ملک کی باگ دوڑ ’چوروں اور ڈاکووں‘ سے ملک کا درد رکھنے والے جرنیل کےہاتھ آنے پر شاداں و فرحاں۔ ہمارے قدرت اللہ شہاب نے ایوانِ صدر کی اس ویران صبح کا ذکر کیاہے جب پچھلی رات اسکندر مرزا کو بیک بینی و دوگوش فارغ کردینے کے بعد جنرل ایوب ایک طمطراق سے تشریف لائے اور قدرت اللہ شہاب سے کہا
’ہم فوجی لوگ ہر بات کی تحقیق کرنے کے عادی ہیں۔ ہم نے انکوائری کرلی ہے۔ تم کسی چیز میں ملوث نہیں ہو۔ اس لیے میں نے تم کو اپنا سیکرٹری مقررکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
شہاب صاحب یہاں اپنی تعریف سن کر نفس کے پھول جانے کا ذکر کرتے ہیں، اور ثانی الذکر کے فربہ ہونےکے لازمی نتیجے میں کمزور پڑجانے والی عقل کا گھونگھٹ اوڑھ کر لکھتے ہیں ’دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی اس غلط فہمی میں مبتلاہوگیا کہ نیا صدر جونظام لانا چاہتا ہے، شاید وہی ملک کے لیے سود مند ثابت ہو۔‘
شہاب صاحب گھاگ سیکرٹری تھے، دو صدور کو نپٹا لینے کے بعد بھی غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے ہم تو جمعہ جمعہ آٹھ دن کے لیفٹین تھے۔ غلط فہمی سمیت خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے ہمارے سارے کوائف پورے تھے۔ اگوکی کے چھاؤنی زدہ ماحول سے یوای ٹی لاہور کو پلٹتے رات گئے کی سنگت میں بھولا کینٹین کے آلو پراٹھے اور چائے کی چُسکیاں لیتے مانی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ شاہد، یاسی، غضنفر اور دوسرے آئین کے بے توقیری کا رونا روتے ہیں۔ الٹا وہ اس بات پر حیران ہوتا تھا کہ کیوں روتے ہیں۔
صدر ایوب نے جب ملک پر اپنی گرفت مضبوط کرلی تھی تو اپنی بنیادی جمہوریت کے علمبردار نمائندوں سے اپنے حق میں ایک ریفرنڈم کروایا تھا، جس کا حسبِ توقع اکثریتی فیصلہ انکے حق میں آیا۔ مگر 94 فیصد سے زیادہ اثباتی ووٹ لینے والے ایوب خان کو اس بات کا قلق تھا کہ مخالف ووٹ ڈالنے والے چھ فیصد ناہنجار کون ہیں۔ کیا یہ ملک کا بھلا نہیں چاہتے!
جنرل مشرف کا ریفرنڈم جب آیا میں ترقی پا کر کپتان بن چکا تھا اور عباسیہ سے تبادلے کے بعد توپخانے کی ایک میڈیم رجمنٹ کا کوارٹر ماسٹر تھا۔ اس ریفرنڈم میں پاک فوج نے بھی افسر اور سپاہی کی تفریق سے بالا تر ہو کر ووٹ ڈالے تھے۔ موصول شدہ ’احکام’ کے برخلاف کرنل بھٹی نے جب جوانوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال میں آزاد ہیں تو ہمارے باریش سرویئر ٹریڈ کے حوالدار نے ہاتھ بلند کرکے تصدیق چاہی کہ سر کیا میں نفی میں ووٹ ڈال سکتا ہوں۔ کرنل صاحب کا جواب تھا، ’کیوں نہیں‘۔ ووٹنگ کے مکمل ہونے پر بریگیڈ کو جب آل اوکے دی گئی تو یہ سن کر کہ توپخانے کی میڈیم رجمنٹ سے ایک ووٹ نفی میں ہےبریگیڈ کمانڈر چراغ پا ہوگئے۔ کمانڈنگ افسر کے دفتر میں ایک کرنل اور ایک بریگیڈیئر کے غیض وغضب کی بوچھاڑ سہتے حوالدار نے ایک ثابت قدمی میں ٹس سے مس ہونے سے انکار کردیا۔ حوالدار کو نہ سہی، بریگیڈیئر صاحب کو تو اپنی نوکری عزیز تھی۔ ان کے براہِ راست حکم پر سروے حوالدار کا اصل منسوخ کرکے ایک جعلی ووٹ اثبات میں ڈالا گیا اور بیلٹ باکس ڈویژن ہیڈکوارٹر روانہ کردیا گیا۔ کسے خبر تھی کہ آنے والے دنوں میں یہی ماڈل ایک بڑے پیمانے پر آر ٹی ایس پر کھیلا جائے گا۔ دیکھیے ہم موضوع سے ہٹے جاتے ہیں۔
ایک رِقّت کا احوال
یہاں سے ہم اپنے پڑھنے والوں کو کل کے راولپنڈی کے مضاف مریڑ لیے چلتے ہیں۔ صاحبو آج کا مریڑ راولپنڈی کا مضاف نہیں ہے۔ پنڈی اپنے پھیلاؤ میں بہت آگے نکل گیا ہے۔ ان گنجان آباد بھول بھلیوں میں مریڑ کے ریلوے پل کے پار مشرق کے رخ اگر آپ ریل کی پٹڑی کو نہ چھوڑیں تو تھوڑا آگے جا کے داہنے ہاتھ قاضی آباد کی طرف ٹینتھ روڈ نکلتی ہے جو ڈھوک چراغ دین کے قبرستان کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔
قبرستان کے مغربی حصےمیں ایک چوگان کے ساتھ ایک کنواں ہے اور نزدیک ہی چار دیواری میں ایک نیم دروازے نما کھڑکی کھلتی ہے۔ چار دیواری کے اندر چھت سے بے نیاز کھلے آسمان تلے سرکارقبلہ سائیں اللہ بخش کی قبرہے۔
ممتازمفتی کی الکھ نگری کا چوبیسواں باب ہمیں راولپنڈی کے مضاف مریڑ کے ایک قبرستان میں سرکار قبلہ سے ملاتا ہے۔ یہیں دو حاضریوں کے بعد مزار سے واپسی پر ریل کی پٹڑی کے پار مریڑ کے سنسان کھیتوں میں مفتی کے اندر ’ایک مدہانی سی چلی۔ سوڈے کی ایک بوتل کھلی‘ اور ہمارے مصنف نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا۔اب اگرآپ الکھ نگری پڑھیں تو بھائی جان محمد بٹ مفتی کو بتائیں گے کہ صاحب مزار سائیں اللہ بخش نے اس پر رقت طاری کردی ہے۔ صاحب مزار کے کھیل نرالے ہیں جب توجہ چاہتے ہیں رقت طاری کردیتے ہیں۔
صاحبو کہانی میں مزید کئی پیچ و خم آنے ہیں اور بات صدر گھر میں ایوب خان کےنام مدینہ منورہ سے آئےمراسلوں تک جانی ہے۔مسجدِ نبویﷺ کے روضے کے چابی بردار جو جہلم کے ایک ریٹائرڈ فوجی ہیں کے خواب میں ایوب خان کے دورِحکومت میں پاکستان کے پھل پھولنے کا ذکر ہونا ہے۔ تصوف کے دفتر کھلنے ہیں فائلیں چلنی ہیں اوربابوں میں سےایک نے جلال میں آکر کہنا ہے
’وہ وقت بھی آئے گا کہ یو این او فیصلہ کرنے سے پہلے پاکستان سے پوچھے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو تم ہماری قبر پر آ کر تھوکنا‘
بات نکلی تو دور تک جائےگی، ہم باقی کا ذکر اپنے پڑھنے والوں کی الکھ نگری کی پڑھنت پر چھوڑ آگے بڑھتے ہیں۔
جنرل مشرف کے ریفرنڈم سے کچھ عرصے بعد کا ذکر ہے۔ کپتانی کے تین تاروں کی نئی نئی جھلملاہٹ کندھے پر سجانے کی خوشی میں چھٹی پر کراچی جاتے ہوئے میں خیبر میل کا مسافر تھا۔ روہڑی جنکشن پر اے سی سلیپر کےشب باش کمپارٹمنٹ میں اچانک ہلچل مچی۔ ایک بریگیڈیرصاحب پنوں عاقل سے کراچی جارہے تھے۔ کمبخت گارڈ نے پروٹوکول کے فریضے کی ادائیگی میں سینیئر افسر کا سامان رکھواتے ہمیں جگانے کو آواز لگائی
کپتان صاحب آپ کے کمپارٹمنٹ میں بریگیڈیر صاحب تشریف لائے ہیں۔ ہمارا باقی کا سفر ایک مروتانہ رکھ رکھاؤ اور آؤبھگت میں گزرا۔ ڈبےمیں نیند کا خمار تو ویسے بھی ٹوٹ چکا تھا۔ ہمارےبقیہ ہم سفر بھی ریل کی مسافت میں فوجی کم سیاسی گفتگو کے ہمہ تن گوش سامع بن گئے۔ بریگیڈیئر صاحب بے تکان بولتےچلے گئے یہانتک کہ نوابشاہ اور حیدرآباد کے درمیان جب صبح کا ستارہ ڈوبنے کو تھا جوش تقریرمیں بریگیڈیر صاحب کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ پرویز مشرف کو براہ راست مدینہ منورہ کی سپورٹ حاصل ہے۔ اب آپ سے کیا چھپائیں اس نورانی منظرنامے میں ہم سمیت شریک گفتگو دیگر کمپارٹمنٹی نفوس پر رقت طاری ہو گئی۔ ہمیں لگا کہ تصوف کے دفتروں میں کھلنے والی پاکستان کی فائلوں پر (نعوذ باللہ) پرویز مشرف کے نام کی مہر لگ گئی ہے۔
پنوں عاقل کے بریگیڈیئر صاحب سے آج کے میڈیا کے سستے دانشوروں تک اس فائل نے چلتے چلتے کافی فاصلہ طے کر لیا ہے۔ اس دفعہ تو پکڑنے والے نے ایک عجلت میں فائل بائیں ہاتھ میں پکڑ لی تھی۔ ایک سرزنش پر مذکورہ دستاویز دائیں ہاتھ سے تھام تو لی گئی مگر بے برکتی دیکھیں بیل پھر منڈھے نہ چڑھی۔ دیکھیے ہم پھر موضوع سے پھسلے جاتے ہیں۔
پاکستان میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ
صاحبو یہ باتیں پرانی ہوئیں۔ ایبٹ آباد سے آتے ہوئے ہری پور سے پہلے ہزارہ ایکسپریس وے سے بائیں ہاتھ کو اتریں تو ایک روڈ ریحانہ گاؤں کو جاتی ہے۔ یہیں اپنے آبائی قبرستان میں فیلڈ مارشل کی قبر ہے۔ میں سکردو سے سوزوکی مہران ڈرائیو کرتا ہوا واپس پنڈی کا مسافر تھا تو یہاں رکا تھا۔ اس ڈھلتی شام ریحانہ کے قبرستان میں ایک کتبے کے پہلو میں جب دعا کو ہاتھ اٹھائے تو کلف لگی پتلون پر ایک تفاخر سے ملٹری سٹک کو مارے ہوئے اور خیبرمیل کے اے سی سلیپر میں طاری ہوئی رقت کو کافی وقت گزر چکا تھا۔
نوشہرہ کا قصہ ہے جب ہم سکول آف آرٹلری میں جونیئر سٹاف کورس کررہےتھے۔ پرویز مشرف کی حکومت تھی اور گیسٹ سپیکر کے طورپر ڈاکٹر اسرار مدعو تھے۔ سوال و جواب کے سیشن میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے برِصغیر پاک وہند میں واقع ہونے کا ذکر آیا تو ہمارے انسٹرکٹر کرنل محسن سے نہ رہا گیا۔ وہ مرنجاں مرنج، حال مست فوجی تھے۔ کہنے لگے ڈاکٹر صاحب ہمیں وضاحت سے ان احادیث کے بارے میں بتائیے جو غزوہ ہند کے بارے میں بغیر کسی شک وشبہے کے اشارہ کرتی ہیں۔ صرف اندازوں کے بل بوتےپر ان نوجوانوں کو غلط پٹی نہ پڑھائیے۔ کرنل صاحب کا انداز سکول والوں کو پسند نہ آیا۔ ایسی بات جس میں سوچ کا غیر روایتی زاویہ نکلتا ہو فوجیوں کو کہاں پسند آتی ہے۔ کرنل محسن کے ویسے بھی فوجی محاورے کی زبان میں نوکری میں دانے پورے تھے اور صاحب سوال کرنے والوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔
بہت بعد کی دوپہروں میں جب ہم نے چکلالہ کو مسکن بنایا تو ہمارا کئی دفعہ ایچ 8 قبرستان آنا جانا ہوا۔ وہیں محوِ استراحت ممتاز مفتی کے لیے بھی ہمارے پاس بہت سے سوال تھے کہ الکھ نگری میں وہ ہمیں کس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا گئے ہیں۔ مگر صاحبو قبرستان کے باسی بھی آدم زاد کے سوالوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ جواب میں ایک گھمبیر خاموشی اپنے اوپر طاری کرلیتے ہیں۔ ممتاز مفتی سے چند پلاٹ اِدھر اسی ایچ 8 کے قبرستان میں جوش صاحب کے پاس قدرت اللہ شہاب سو رہے ہیں۔ ایک عمر کی افسر شاہی اور یکے بعد دیگرے تین آمروں کو بھگتانے کے بعد انہوں نے شہاب نامہ میں بیان کیا یہ سبق سیکھا تھا کہ
’جمہوریت بڑی غیرت مند اور حاسد دُلہن ہے۔ اس کے اوپر سوکن کا سایہ بھی پڑجائے تو یہ گھر بار جلاکرخاکستر کردیتی ہے۔‘

پاکستان میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی پہلی قسط کے علمبردار تو قبروں میں جا سوئے۔ دوسری قسط کو ہم نے اپنے سامنے ڈھلتے دیکھا۔ کمانڈو وردی پہنے ہاتھ میں سگار دبائے ایک ملٹری ڈکٹیٹر نے میدان جنگ میں منہ کی کھائی تو اپنی گردن کو پھندے سے نکالنے کی خاطر کم و بیش ایک دہائی تک اس قوم کا ٹینٹوا دبائے رکھا۔ کہنے والے کہتے تھے کہ اسے بھی مدینے کی آشیرواد ہے۔ مگر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وہ قصہ بھی تمام ہوا۔ گئے دنوں میں اس کا بھی انتقال ہو گیا۔
دنیا تو ایک سرائے ہے، آج ان کی کل ہماری باری ہے۔ پردہ کر جانے والے کے اپنے اعمال کا معاملہ خدا کے ہاتھ ہے۔ اور اللہ تو بادشاہ ہے جو چاہے کرے۔ لیکن ہم اور آپ تو تھُڑ دلے انسان ہیں۔ جانے والا جو ہماری قوم اور اس ملک کے ساتھ کما کر گیا اسے کیسے فراموش کردیں۔ اس کا ذکر تو کریں گے تاکہ آئندہ آنے والوں کو تو سبق ہو (گو اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے)۔
ان گنہگار آنکھوں نے ایک دو چھوڑ ان گنت آمروں اور ہائبرڈ رجیمز کو بھگتایا ہے۔ صاحبو ہم نے تو یہی سیکھا کہ جب لوگ حق رائے دہی کو بے توقیر کر کے تبدیلی کی راہ دیکھیں تو ان پر جو مسلط ہوتا ہےاس کے بارے میں یوسفیؔ والے مرزا کہا کرتے تھے
’اللہ معاف کرےمیں تو جب اعوذ باللہ من الشیطٰن الرّجیم کہتا ہوں تو ایسامحسوس ہوتا ہے جیسے رجیم سے یہی regime مراد ہے۔ نعوذباللہ، ثم نعوذباللہ۔‘
پسِ تحریر
بہت بعد کے دنوں میں لاہور کی ایک شام ہماری بریگیڈیئر ریٹائرڈ جاوید اقبال سے ملاقات ٹھہری۔ تب تک ہم خود بھی میجر ریٹائرڈ ہوچکے تھے۔ بریگیڈیئر صاحب ایک خوش رنگ بے نیازی سے گزرے زمانے کو یاد کرتے تھے اور اس شام انہیں سنتے ہماری آنکھوں میں ان کے لیے ایک دفعہ پھر سے اگوکی کے افسر میس کے لان والی ستائش تھی کہ جب وقت پڑا تو عباسیہ کا ایک افسر تو تاریخ کی درست سمت کھڑا تھا۔
12

اُچّے ٹِبے پنڈ بسوہلی
نیڑے جموں شہر سنیندا
دیویکا ندی
پنڈت کلہن کی راج ترنگنی میں سرینگر کی گرمیوں کی دوپہروں میں وِتاستا کےٹھنڈے میٹھےپانیوں میں گھُلتی بہتی برف کی سِلوں کا ذکر ہے۔ وِتاستا عزیز قارئین، جسے ہم آپ دریائے جہلم کے نام سے جانتے ہیں۔ کشمیر کی دلربا وادی کی تاریخ اور جغرافیے کی ضخیم اور منظوم کتھا راج ترنگنی اپنی روایتوں کی صحت ساتویں آٹھویں صدی میں ترتیب دیے ہندومت کے مذہبی کم تاریخی صحیفے نیلمت پران سے جوڑتی ہے۔
توصاحبو نیلمت پران کے اشلوک ہمیں بتاتے ہیں کہ گئے وقتوں میں شِو دیوتا کی اوما دیوی نے ایک پوترتا میں پانی کا روپ دھار چندربھاگ (چناب) اور اراوتی (راوی) کے دریاؤں کے بیچ کی زمینوں کو دیویکا ندی بن سیراب کیا۔ جموں اور ادھم پور کے پہاڑوں کی ترائی سے بہتی یہ دیویکا ندی وہی ہے جس کے پانی پنجاب کی زمینوں کو پلٹتے ڈیگھ کا روپ دھارتے ہیں۔ وہی ڈیگھ ندی جو سیالکوٹ کے سرحدی قصبے ظفروال کے پاس پاکستان میں داخل ہوتی ہے تو اس کے بل کھاتے پانی جبکہ مون سون میں ان پانیوں کے بہنے کا موسم ہوتا ہے کھڑی چاول کی فصل کے نمو کی نوید لاتے ہیں۔
برطانوی راج کے افسر شاہی روزنامچے (گزیٹیئر) بتاتے ہیں کہ لاہور کی سرحد کے پاس اس ندی کے خونخوار پانیوں کی نسبت سے اس کا نام باگھ بچہ مشہور تھا کہ اس کے پانی کوٹ پنڈی داس کی آبی گزرگاہ کے پاس پنجابی محاورے کے مطابق ہر سال بندہ بلکہ بندے لیتے تھے۔
اسی گاؤں پنڈی داس کے پاس سیر اور شکار سے پلٹتے ہمارے مغل شہنشاہ جہانگیر کے کارروان کو مون سون کی بارشوں میں ڈیگھ کے سیلاب نے آ لیا تھا اور شاہی قافلہ تین دن تک ڈیگھ ندی کے کنارے پڑاؤ ڈالے پانی کے بہاؤ کے ٹھہر جانےکا انتظار کرتا رہا۔ شاہی قافلے پر پڑی افتاد کے سبب جہانگیری فرمان کی رو سے کوٹ پنڈی داس کی آبی گزرگاہ پر ایک پُل تعمیر کیا گیا۔ اگر آپ آج کی تاریخ میں لاہور سے جی ٹی روڈ کے مسافر ہیں تو کالا شاہ کاکو کے ٹال پلازے پر ایک اکتائے ہوئے بُوتھ آپریٹر کو تاوان بھر لینے کے بعد تھوڑا آگے جاتے ہیں تو داہنے ہاتھ چک نمبر 44 کے سٹاپ سے تھوڑا اندر ہوتے ہی باہمن والی پُل کی باقیات کھڑی ہیں۔
ہم جموں کے پہاڑوں کی ترائی سے چلتی ڈیگھ کے مسافر ہوئے تو اس کے پانیوں کی رو میں بہتے لاہور اور شیخوپورہ کی سرحد تک چلے آئے۔ ڈیگھ کے پانی تو چلتے چلے جائیں گےاور کل کے منٹگمری اور آج کے ساہیوال کی حدود میں انجام کار راوی کے بہاؤ کا حصہ بنیں گے مگر ہماری آج کی داستان ڈیگھ کے پانیوں کے بارے میں نہیں ہے۔
اُچے ٹبے پنڈ بسوہلی
کوٹ پنڈی داس کے پل سے ہم واپس سیالکوٹ کی سرحدی زمینوں کو پلٹتے ہیں جہاں ہماری مٹیار ظفروال کی کمر کے بل پر ڈیگھ ندی مڑا کرتی تھی اور وہیں کہیں لہڑی بند کے اِس پار کسی کی ہنسی سُن سُن کر کرنل باسمتی کی فصل پکا کرتی تھی۔ وہی لہڑی بند جو ظفروال کی قربت میں اپنے ہم نام گاؤں سے شروع ہوتا سامنے کی پاک بھارت سرحد سے ایک محتاط فاصلہ رکھتا اسی سرحد کے کھنچے خطِ شکست کی پیروی کرتا شِو کمار بٹالوی کے گورے دن کی کرنوں والے چھینبے سپ (سانپ) کی مانند ایک نشیلی لچکیلی لہر دار ڈگر میں چلتا پورب کی اور شکرگڑھ اور اس سے پرے کی زمینوں کو نکل جاتا ہے۔ اسی لہڑی بند پر عباسیہ کی ڈائریکٹ سپورٹ پلٹن کے مورچے تھے۔
صاحبو پاک بھارت جنگوں کے تناظر میں اس ڈیگھ ندی کی ایک دفاعی افادیت بھی ہے۔ فوجی نقشوں پر دو ڈویژنوں کو تقسیم کرتی ڈیگھ کے اطراف پینسٹھ اور اکہتر کے معرکوں میں ہندوستانی رسالے نے پیش قدمی کی اور شکرگڑھ بلج (ابھار) نے چونڈہ اور بسنتر کے خون آشام معرکے دیکھے۔ اگوکی کی ایک پچھلی داستان میں ہم اپنے پڑھنے والوں کو 35 فرنٹیئر فورس چارجنگ بلز اور لیفٹیننٹ کرنل اکرم راجہ شہید، ہلالِ جرات کی کہانی سناتے، جرپال بڑا پنڈ کی زمینوں میں لے آئے تھے۔ بڑاپنڈ جرپال کا جڑواں گاؤں ہے۔ بڑا پنڈ نے اکہتر کی پاک بھارت جنگ میں آرمرڈ کور (رسالے) کے حملوں کے حوالے سے شہرت پائی اور اگر پاکستان کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو جہاں عسکری پنڈت اس جنگ سے سیکھے جانے والے سبق اخذ کریں گے ہمارا رسالہ بڑا پنڈ کو بھول جانے کو ترجیح دے گا۔ ہم بھی آج بڑا پنڈ کو کسی دفاعی حوالے سے نہیں بلکہ ایک اور بھلی سی نسبت سے یاد کریں گے۔
بڑا پنڈ جب اس نام سے کم اور لوہٹیاں کے نام سے زیادہ جانا جاتا تھا اور یہاں سے جموں کی صرف روشنیاں ہی نظر نہیں آتی تھیں بلکہ لوگ ظفروال سے براستہ درمان بلا روک ٹوک جموں آتے جاتے تھے تو ہمارے اس گاؤں میں پنجابی زبان کے جواں مرگ شاعر، جسے ہمارے دوست محمد حسن معراج پنجابی زبان کا جان کیٹس کہتے اور مانتے ہیں، ساڈے برہاں دے سلطان نے آنکھ کھولی تھی۔ بڑا پنڈ لوہٹیاں شِو کمار بٹالوی کا آبائی گاؤں ہے جہاں وہ پیدا ہوئے۔ بٹوارے کے بعد سرحد پار کے مہاجر ہوئے تو بٹالہ آ کے ٹھہرے اور شِو کمار کی نسبت سے شہرت کی دیوی بھی بٹالے پر مہربان ہوئی۔
آج کے یوٹیوب ولاگرز سرحد کی ہمسائیگی میں لوہٹیاں کی اپنی یاترا کو فلماتے ہیں تو گاؤں والے ایک مان کے ساتھ شِو کمار بٹالوی کے آبائی مسکن کی کچھ محفوظ یادگاریں دکھاتے ہیں۔ اپنے جس سپوت پر آج کا پنجاب ناز کرتا ہے 75 برس قبل کے بٹوارے میں اس کے خاندان کو پنجاب کی دو نوزائیدہ شناختوں میں سےایک کو اپنانے کو ہجرت کرنی پڑی تھی کہ سرحد کے اِس طرف کے پنجابیوں نے ان بدمذہبوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا۔ لوہٹیاں کا شِوکمار جب شکرگڑھ ٹپ بٹالہ آگیا تب بھی بڑا پنڈ سے دِکھتی جموں کی پہاڑیوں کو نہیں بھولا۔ جموں جس کے پہاڑوں کی ترائی سے اوما دیوی پانی کے روپ میں ڈیگھ بن کر اتری تھی۔ انہی پہاڑوں میں توی کے پانی پیتا پنڈ بسوہلی ہے جس کے اُچے ٹبے ہیں اور جس پنڈ بسوہلی اور جموں کو یاد کرتے بڑا پنڈ اور بٹالے کے شِو کُمار نے اپنی نظم چُمن لکھی تھی
اُچے ٹبے پنڈ بسوہلی
نیڑے جموں شہر سُنیندا
کسے کُڑی دی گوری ہِک تے
کالے تِل دے وانگ دسیندا
روز توی دے پانی پیندا
لہڑی بند اور چاند پہ خرگوش
بارش کھُل کے برسی ہو اور موسم صاف تو لہڑی بند سے جموں کی پہاڑیاں صاف نظر آتی تھیں اور اونچے ٹبوں والا پنڈ بسوہلی جو نظر تو نہیں آتا تھا مگر وہیں کہیں تھا۔ وہی لہڑی بند جہاں ہماری ڈائریکٹ سپورٹ انفنٹری پلٹن کے مورچے تھے۔ اپنے بیٹری کمانڈر میجر علی رضا نقوی کے ساتھ رابطہ سازی ملاقاتوں پر اکثر ہمارا لہڑی بند جانا ہوتا۔ جاتے وقت ہم کمانڈ پوسٹ سے بیٹری کمانڈر ٹیلی سکوپ لیتے جاتے اور لہڑی بند کی نمایاں بلندی سے سامنے کی زمینوں کی دید بانی کرتے نقشوں کو زمین سے اور ہر دو کو شمال سے ملاتے۔ مقصد اپنی مار کے علاقے میں دشمن کی متوقع نقل و حمل کے حساب سے چنے گئے ٹارگٹوں کی دہرائی اور ان سے متعلقہ معلومات کی درستی تھی۔
دفاعی افادیت کی زمینی قراولی (قراولی زمینی دیکھ بھال کا فوجی مترادف ہے اور یہ جناتی ترکیب اصل لفظ سے کہیں زیادہ کریہہ الصوت اور مکروہ ہے) سے فراغت ملتی تو اکثر پورے چاند کی راتوں میں بی سی ٹیلی سکوپ کا لینس چاند کو فوکس کرتا کہ میجر نقوی کو اجسامِ فلکی ستاروں اور سیاروں سے خاص شغف تھا۔ یہیں ہم نے چاند کے گڑھوں کو بہت نزدیک سے دیکھا، اتنا نزدیک کہ جیسے ہاتھ بڑھاتے ہی چھو لیں اور اپنے بچپن کے اس تاثر پر مزید پختہ ہوگئے کہ چاند پر چرخہ کاتنے والی مائی نہیں بلکہ ایک خرگوش رہتا ہے جو ایک مشغولیت سے اپنے پنجوں میں جکڑی گاجر کو کترنے میں مگن ہے۔ ان دنوں ہرمن جیت نے ابھی رانی تت نہیں لکھی تھی اور من پریت نے ابھی ان نظموں کو گٹار کے سُروں میں نہیں پرویا تھا ورنہ ہم بھی بی سی ٹیلی سکوپ کے جلو میں لہڑی بند کی رومانوی چاندنی راتوں میں گنگناتے پھرتے
لپیٹاں ریشماں اندر میں تیرے عیب وی سوہنے
کہ چن دے داغ دھوون نوں کسے دا جی نہیں کردا
میجر نقوی تو اقبال کے مومن کی عملی تفسیر تھے کہ یہاں ’ مومن کی يہ پہچان کہ گم اس ميں ہيں آفاق‘ والا معاملہ تھا۔ ایک جونیئر لفٹین ہونے کی رعایت سے ہماری پہنچ ابھی زمین تک ہی محدود تھی۔ موقع ملنے پر ہمارے لیے ٹیلی سکوپ کا عدسہ لہڑی بند کے متوازی ہی رہتا ہاں مگر بھٹکتی پھسلتی چھچھلتی ہوئی نظر سرحد پار نکل جاتی۔ بارش کُھل کے برس جانے کے بعد چھٹتے بادلوں کےساتھ جب فضا میں معلق گرد بھی ہوا ہو جاتی تو جو منظر دُھل کے نکلتا اس میں پیر پنجال کے پہاڑ صاف نظر آتے۔ جموں سے شمال کی سمت ایک عمودی چڑھائی چڑھتی دیویکا مندر کو چھوتی ادھم پور جاتی سڑک لشکیں مارتی اٹھلاتی چلتی چلی جاتی۔ جموں سے ہی پوربی دشا کو پلٹتی سامبا کی چھاؤنی سے لگ کر گزرتی سڑک کٹھوا ۔ پٹھانکوٹ کو جاتی۔ یہ میجر نقوی والے لیٹرلز میں سے ایک تھی۔ اور وہیں کہیں جموں کی پگ بوسیاں لیتا توی کا پانی بھی شمال کی دشا سے بہتا نظر آتا، وہی توی روز جس کا پانی پیتا پنڈ بسوہلی تھا جو ’کسے کُڑی دی گوری ہک تے کالے تِل دے وانگ‘ دکھتا تو نہیں تھا مگر وہیں کہیں تھا کہ ایسا شِو کمار بٹالوی کی نظم چُمن کا کہنا تھا
ایس پنڈ دیاں کُڑیاں چِڑیاں
وانگ موتیے تڑکے کِھڑیاں
نین اوہناں دے گِٹھ گِٹھ لمے
جیوں بھوراں دیاں لمیاں ڈاراں
چیت مہینے آتھن ویلے
پولھی دے پھُلاں تے جڑیاں
ہونٹھ جویں روہی دے پتر
وچوں مٹھا دُدھ وگیندا
کوئی کوئی کرماں والا پیندا
اُچے ٹبے پنڈ بسوہلی
نیڑے جموں شہر سُنیندا
ظفروال کی سکینہ اور دو کُو چُمن
بڑا پنڈ لوہٹیاں کے شِو کمار کی جموں شہر کے پاس توی کا پانی پیتے پنڈبسوہلی کی بہت سی یادیں ہیں۔ وہ ہمیں ہاڑ کے مہینےمیں اُٹھنے والے چینے بادلوں، پہاڑوں سے بہنے والے جھرنوں کے پانی جیسے کہ مدینے بیٹھے حاجیوں کے آنسوؤں کی نہ تھمنے والی جھڑی ہو، پنڈ کے آلے دوالے بہتی کسیوں ندی نالوں اور چیت مہینے میں صبحدم نکلتی کُڑیوں چِڑیوں کی بھول بھلیوں سے گزارتے انجام کار جیٹھ کے مہینے میں پیش آئے اپنے معاشقے تک لے آتے ہیں جب پنڈ بسوہلی کی سکینہ انہیں پہلے پہل ملی تھی۔ یہاں اپنے پڑھنے والوں کو بتاتے چلیں کہ ہمیں بقیہ شاعرانہ تعلیات جن میں کہ ہمارے شاعر کی محبوبہ کے جسمانی نشیب و فراز اور سکھیوں سہیلیوں کی ٹولی اور ان کے جملہ مشاغل و الہڑ مصروفیات کی طرف اشارہ ہے کو بوجوہ یہاں حذف کرنا پڑ رہاہے کہ ہمارے شاعر جس بے نیازی سے شعر کا گھونگھٹ نکال ذومعنی فقرے کس جاتے ہیں اسی بات کو یہاں نثر میں لکھنے پر تو ہم فی الفور دھر لیے جائیں گے اور ایسے کیسوں میں تو پاک سر زمین میں ضمانت بھی نہیں ہوتی۔
تو ہم جیٹھ مہینے میں پہلے پہل پنڈ بسوہلی کی جمی جائی سکینہ کے ہمارے شاعر سے ملنے کا ذکر کررہے تھے۔ اس کے بعد کی دوسری مُلاقات میں سکینہ ’دو کو سچے چُمن‘ دے کے جو گئی ہے تو واپس کبھی نہ آئی۔ سکینہ کیا گئی پنڈ بسوہلی کی کُڑیاں چِڑیاں بھی رُوٹھ گئیں اور ہمارا شاعر ان پہاڑوں میں اپنی محبوبہ کو بُلاتا کھو گیا جہاں اونچے ٹِبوں پر پنڈ بسوہلی ہے جو جموں کے پہاڑوں میں یوں دِکھتا ہے جیسے کسی گوری کے شانوں پر کالا تِل چمکتا ہو۔
صاحبو اگوکی کی کہانی بھی پنڈ بسوہلی کی داستان ہے۔ یہاں چیت مہینے آتھن ویلے ٹھاکر دوارے کے مورچے ہیں جو نکی نکی کنڑیں کے مینہہ کی پھوار میں ملنگی کے ریکارڈ ’نی اک پُھل موتیے دا مار کے جگا سوہنیے‘ کے سُروں پر کھودے گئے تھے۔ آج کی زمین پر تو ان کا نام ونشان تک نہ ہوگا مگر دل کی زمینوں پر وہ کُھدائی ابھی تک تازہ ہے۔ جیٹھ ہاڑ سے پرے لہڑی بند سے آگے لنگڑیال کی قُربت میں ایک طلوع ہوتی رات کی تاریکی میں جاسوس نمبردار اور لانس نائیک امین کی پختو کی کرچیاں بکھری پڑی ہیں۔ انہیں جوڑ کر دیکھیں تو میجر چشتی ایک آنکھ مارکر خوش دلی سے کہہ اُٹھتے ہیں ’چلو میرے شیر، بہترین ماحول ۔ ہوادار کمرے ۔ فلش سسٹم‘۔ بڑا پنڈ کی قربت میں جرپال کی خون رنگ یادگار آج بھی کرنل راجہ کی شجاعت کی داستان کہتی ہے اور تھوڑا آگے کو چلتے جائیں تو ہرڑ خورد کے پاس ایک ٹیکری پر سوارمحمد حسین، ہمارے ساتویں نشانِ حیدر کی جائے شہادت کی یادگار ہے۔
اگوکی کے افسر میس کی بڑے غلام علی اور ملکہ پکھراج کے سُروں سے رنگی راتوں سے شکر گڑھ بلج میں ظفروال کے محاذ کو پلٹتے نیم لفٹین کو بھی انہی لہردار راہوں میں ملی سکینہ اور اس کے ’دو کو چُمن‘ آج تک یاد ہیں۔ جب یادیں دھاوا بولتی ہیں تو ہم بھی کسی کُڑی کے گورے شانوں پر لشکتے کالے تِل کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ (ہمارے جن پڑھنے والوں کو پنجابی ترکیب ’ہِک‘ کو اردو میں کُڑی کے ’شانوں‘ سے تشبیہ دینے پر اعتراض ہو رہا ہو تو ان کے لیے عرض کرتے چلیں کہ شانوں سے زانوں تک کی بات ایک شاعرانہ گنجائش میں کہی جاسکتی ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو برِصغیر کی تمام شاعری شانوں سے زانوں تک کا سفر ہی تو ہے۔ ہماری معصوم نثر پر تو فحش گوئی کا داغ لگ جائے گا جو سنسر بورڈ کے غسل دینے پر بھی چھٹائے نہیں چھٹے گا)۔ دیکھیے اس دفعہ آپ بھی ہمارے ہم سفر تھے تو خیالوں کا ہنس کیا کیا موتی چُگ لایا۔
صاحبو ناسٹل جیا ایک خطرناک جانور ہے۔ گزرے دنوں کی گھاٹیوں میں گھات لگائے بیٹھا یہ وہ باگھ بچہ ہے جو موقع ملتے ہی جست بھر کے دبوچ لیتا ہے۔ اس باگھ بچے کا شکار ماضی گزیدہ آدمی پھر حال جوگا نہیں رہتا۔ اس کی مثال گزشتہ زمینوں پر اُڈاری بھرنے والے ہنس کے جیسی ہے جو ان ممنوعہ وادیوں کے لشکتے سراب میں اترے اور پانیوں میں چونچ مارے تو آئندہ کوئی موتی چُگنے کے قابل نہ رہے۔
کہنےوالے کہتے ہیں کہ سیالکوٹ کے پانی جیسا پانی کہیں نہیں۔ ہم نے مان سروور جاتے جاتے اگوکی کو آواز کیا دی کہ ان زمینوں کا پانی پی کر وہیں ڈھے گئے، کہیں اور جانے کوئی اور موتی چُگنے جوگے بھی نہیں رہے۔۔۔
کدے کوئی جے ہنس وچارا
مان سروور جاون والا
ایس گراں دا پانی پیندا اے
اوتھے ای اوہ ڈُب مریندا اے
مُڑ نہ موتی اک چُگیندا اے
اُچے ٹبے پنڈ بسوہلی
نیڑے جموں شہر سُنیندا
کسے کُڑی دی گوری ہِک تے
کالے تِل دے وانگ دسیندا
تمام شُد
