7

لہڑی بند، کرنل فرخ، اور جاسوس نمبردار
مسرور بڑا بھائی
ویکھو پائین، دوگلاں پلّے بنھ لوو!
یہ نمبردار وغیرہ ڈبل ایجنٹ ہوتے ہیں ان پر بھروسہ بالکل نہیں کرنا۔ سب سے آگے اپنے ہتھیارکی زد پر رکھنا
ماڑا موٹا وی شک پے جاوے تے فٹ گولی مارنی اے، بھورا وساہ نئیں کرنا (یہاں لانس نائیک امین کے کان کھڑے ہوگئے)
دوسرابارڈرکی نشانی درختوں کی لائن ہے۔ ہندوستان کی طرف بہت گھنے درخت ہیں اورہماری طرف رڑا میدان۔ جہاں درختوں کی قطار نظر آئے سمجھ جائیں وہ زیرولائن کے پار ہے
ہم ظفروال کے محفوظ دفاعی حصارمیں میجرچشتی سے الوداعی ہدایات لے رہے تھے۔ جب روانہ ہونے لگے تو میجر چشتی نے ایک اور بات ہمارے کان میں ڈالی۔ ’شارٹ کٹ انکا کوڈ ورڈ ہوتا ہے‘۔ ہماری شکل پر بات سمجھ نہ آنے والے تاثرات دیکھ کر بولے ’یہ ڈبل ایجنٹ بہت کائیاں ہوتے ہیں، اگر تمہارا گائیڈ گاؤں کا نمبردار کہے کہ صحیح راستہ لمبا ہے اور اسے شارٹ کٹ کا پتہ ہے تو سمجھ جائیں دال میں کچھ کالا ہے۔ شارٹ کٹ بالکل بھی نہیں لینا‘
یہ نہ ہو انڈین فوج کی قید سے بی بی سی اردو سے تم لوگوں کا انٹرویو آرہا ہو۔ اگے تسیں آپ سمجھداراو
چلو شاباش! بہترین ماحول ۔ ہوادارکمرے ۔ فلش سسٹم
شکرگڑھ سے شمال مشرق کی سمت ایک عسکری افادیت کے رکھ (جنگل) کے پڑوس میں مسرور نام کا گاؤں ہے۔ یہاں ایک پہاڑی ٹیلے پر واقع خواجہ عبدالسلام چشتی المعروف بڑا بھائی کا مزار ہے جن سے اس علاقے کی زرخیزی اورشاد آبادی کی بہت سی کرامتیں منسوب ہیں۔ صاحبِ مزارکی نسبت سے یہ گاؤں مسرور بڑا بھائی کہلاتا ہے۔ پاک بھارت سرحد پر واقع یہ گاؤں ایک عام بارڈر ولیج سے کچھ مختلف نہیں۔ ہاں ایک افادیت اسے عسکری نقشوں پر ممتاز کرتی ہے۔
مسرور بڑا بھائی کے پاس پاک بھارت سرحد سے وہ لکیر کھنچتی ہے جو بھارتی پنجاب کو جموں کشمیر کی ریاست سے جدا کرتی ہے۔ اس گاؤں سے نیچے نیچے جنوب اور جنوب مغرب کی طرف بڑھتا انٹرنیشنل بارڈر یعنی بین الاقوامی سرحد ہے جو 1947 کی ریڈ کلف لائن سے بہت مختلف نہیں۔ مسرور بڑا بھائی سے شمال کی سمت چلتے بارڈر کی قانونی اور عسکری حیثیت اچانک تبدیل ہو جاتی ہے کہ اب یہاں پاکستان کا پنجاب کشمیر کی سرحد کو چھوتا ہے اور پاکستان مقبوضہ وادی کی سرحد کو تسلیم نہیں کرتا کہ ہماری دانست میں کشمیر کا الحاق 1947 میں پاکستان سے ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہوا۔
صاحبو، ایک وعدۂ فردا کی صلیب پر لٹکتا استصوابِ رائے کا دلاسہ تو اب پچھلی صدی کا قصہ ہے۔ اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا مگر ایک اٹوٹ انگ کی ہٹ دھرمی اور آزادی کی گوریلا جنگ کے مابین پھنسی اس سرحدی لکیر کو دونوں فوجوں نے اپنا خون پلا پلا کر جوان کیا ہے۔ دونوں ملک اپنی دانست میں اپنے اپنے غاصبانہ علاقے کو آزاد اور ہمسائے کے حصے میں آئے ٹکڑے کو مقبوضہ گردانتے ہیں۔ مسرور بڑا بھائی سے چلتی شمال میں چھمب کے محاذ کو پہنچتی یہ سرحد ورکنگ باؤنڈری کہلاتی ہے کہ اکثر یہاں کوئی بھی مستقل سرحدی نشان کھڑا کرنے پر اور کبھی کبھار بلاوجہ چھوٹےآٹومیٹک ہتھیاروں (مراد اس سے رائفل اور لائٹ مشین گن ہیں) کا فائر کھل جاتا ہے۔ اللہ بخشے اپنے مولانا حالی کی مسدس یاد آگئی
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
چھمب جوڑیاں سے اوپر جہاں ہمارا کشمیر شروع ہوتا ہے وہاں سے یہی سرحد لائن آف کنٹرول بن جاتی ہے جو 1947-48 کی کشمیرکی پہلی جنگ میں واگزار کروائی وادیٔ کشمیرکی اس تنگ سی پٹی کو ہندوستانی علاقے سے جدا کرتی ہے۔ یہ لائن آف کنٹرول اکثرآؤٹ آف کنٹرول رہتی ہے کہ یہاں توپخانے کے فائرسے لے کر، سرحد پار حملے اور گھات لگانے کی مکمل آزادی ہے۔ اسی آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے65 میں جبرالٹر اور99 میں کارگل کی جنگ لڑی گئی۔ یہ اوربات کہ لائن آف کنٹرول کی قانونی حیثیت سے قطعِ نظردونوں بارہمیں یہ ماننے کا حوصلہ نہیں ہوا کہ سرحد پار جنہوں نے اپنے کشمیری بھائیوں کے حق کے لیے ہندوستان کے دل میں نقب لگائی ہے وہ ہماری پاک فوج کے سپاہی ہیں۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا اور لائن آف کنٹرول ہماری اس تحریر کے سکوپ سے باہر ہے تو صاحبو واپس مسرور بڑا بھائی کی ورکنگ باؤنڈری کو پلٹتے ہیں۔
ڈی ایف پلاننگ
شمال میں کارگل میں ہوئی دراندازی کےجواب میں شکرگڑھ بلج میں ہندوستانی سپاہ کی آمد آمد تھی اور ورکنگ باؤنڈری پرچاند ماری میں اضافہ ہو چلا تھا۔ ڈویژن ہیڈکوارٹر سے ہر ممکن تیاری کے احکام موصول ہوچکے تھے۔ اسی سلسلےمیں ڈویژنل آرٹلری سے ایک پروانہ موصول ہوا کہ توپخانے کی یونٹوں کے آبزرور بارڈر پر اپنے اپنے علاقے کی رینجزز پوسٹوں پر رپورٹ کریں اور اپنے نقشوں پر ڈی ایف پلاننگ مکمل کریں۔
ڈی ایف عکسری مخفف ہے ڈیفنسو فائر کا۔ ڈی ایف پلاننگ کا مطلب ہے کہ اپنے ذمہ داری کےعلاقے میں دشمن کی سپاہ کے ممکنہ ارادوں کے پیش نظر اہم علاقوں کو زمین پر شناخت کر کے نقشوں پر مارک کر لیا جائے اور ضرورت پڑنے پر توپخانے کے فائر سے انہیں رجسٹر کرلیا جائے۔ اس طرح جنگ ہونے کی صورت میں ان ٹارگٹس پر بروقت فائر منگوانے میں مدد ملتی ہے۔ عباسیہ کے آبزورز کی قرعہ اندازی میں ہماری بھی لاٹری نکل آئی اور نقشے مارک کرتا انٹیلی جنس افسر اپنا نقشہ پکڑ ظفروال کا مسافر ہوا۔
ظفروال کے جنگی ہیڈکوارٹر میں تمام یونٹوں سے آئے آبزرورز کی بریفنگ ہوئی اور اپنی ذمہ داری کی پوسٹیں الاٹ ہوئیں۔ ہر آبزرورپارٹی کو رات کے اندھیرے میں متعلقہ رینجرز پوسٹ تک پیدل جانا تھا اور ایک دن پوسٹ پر گزار کسی اونچی گھاٹی یا آبزرویشن ٹاورکا فائدہ اٹھاتے ہوئے میپ مارکنگ مکمل کرکے اسی رات واپس ظفروال پلٹ آنا تھا۔ ظفروال سے آگے لہڑی کے دفاعی بند سے ان پارٹیوں کو آگے لے جانے کی ذمہ داری متعلقہ علاقے کے نمبردار کی تھی جس نے یا تو خود گائیڈ کے فرائض انجام دینے تھے یا پھر علاقے سے واقف گائیڈ مہیا کرنا تھا۔ ہماری آبزرور پارٹی میں ہمارے علاوہ ٹیکنیکل اسسٹنٹ سپاہی گل شیر اور وائرلیس آپریٹرلانس نائیک محمد امین شامل تھے۔ لہڑی بند کے اوپر جس طے شدہ مقام پر ہمارے نمبردار نے ملنا تھا وہ علاقہ ہمارا دیکھا ہوا نہیں تھا۔
ظفروال سے لگ بھگ نو میل شمال مشرق میں ڈیگھ ندی کے چوڑے ہوتے پاٹ کے کنارے لہڑی کا مختصر سا گاؤں ہے۔ یہاں سے گاؤں کا ہی ہم نام دفاعی بند شروع ہوتا ہے جو کسی لہردار نشیلے سانپ کی طرح بل کھاتا ورکنگ باؤنڈری کے متوازی شکرگڑھ کی سمت چلتا چلا جاتا ہے۔ سرحد سے لہڑی بند کا فاصلہ کچھ جگہوں پر ایک میل جبکہ باقی جگہ چار سے پانچ میل ہے۔ یہ فوج کی پہلی دفاعی لائن ہے۔ زمانہ امن میں اس بند سے آگے کی پوسٹیں اور مورچے رینجرز کے جوان سنبھالتے ہیں۔
زمانہ امن میں پہلے دفاعی بند سے آگے فوج کے جانے کی ممانعت ہوتی ہے۔ اس کے توڑ میں آپریشنل ایریا ریکی پر آئے افسر سول کپڑوں اور گاڑیوں میں بند سے آگے کا سفر کرتے ہیں۔ ہم نے بھی اپنے وقت پر لہڑی بند سے آگے کا اپنا ذمہ داری کا علاقہ دیکھ رکھا تھا، لیکن صاحب ایک تو اسے عرصہ ہوگیا تھا دوسرا وہ کونسا محبوب کا کتابی چہرہ تھا یا پھر فیض کی کوئی دلربا دلدار نظم جو یاد رہتا/رہتی۔ تیسرا ظفروال کی بریفنگ میں جوعلاقہ ہمیں تفویض ہوا تھا وہ ہمارے ذمہ داری کےعلاقے سے مختلف تھا، ہم تو کیا ہمارے فرشتوں کو بھی اس کی خبر نہیں تھی۔ اور صاحبو خبر ہوتی بھی تودن اور رات کی واردات میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
دیکھیے برا نہ منائیے گا جس طرح سکھوں کے بارے میں بارہ بجے کا لطیفہ مشہور ہے بالکل وہی مثل رات کے حوالے سے فوجیوں پرصادق آتی ہے کہ سورج ڈوبتے ہی ان کا شمال گم جاتا ہے۔ اسی دن کی روشنی میں ٹارگٹ ایریا کاکوئی ایک ڈیڑھ کلومیٹردور سے جائزہ لے کر ایک انفنٹری پلٹن جب سورج ڈوبنے پر ایف یو پی سے آگے سٹارٹ لائن کراس کرتی ہے تویہ فاصلہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ چلتے چلتے پلاٹونیں ہدف سے دور کہیں کی کہیں نکل جاتی ہیں۔ جن کمپنیوں پر خاص فضل و کرم ہوتا ہے وہ تواس تاریکی میں ایک دوسرےکودشمن سمجھ کرآپس میں لڑمرتی ہیں۔
کرنل فرخ اور ناوکِ دشنام
اللہ انکی عمر دراز کرے توپخانے میں ہمارے دوسرے گھر، ایک میڈیم رجمنٹ میں ہمارے پہلے سی او کرنل فرخ کہا کرتے تھے کہ رات کے اندھیرے میں کسی کی بات پر بھی اعتماد مت کرو، خاص کر بیٹری صوبیدار کی بات پر تو بالکل نہیں۔ آپ پوچھیں گے صاحب وہ سامنے کیا ہے، صوبیدار صاحب ایک یقین کے عالم میں کہیں گے کہ سر کچھ نئیں ڈرم اے۔ آپ نزدیک جاکر دیکھیں گے آگے بندہ بیٹھا ہوگا، مگر تب تک آپ لوڑے لگ چکے ہوں گے۔
کرنل صاحب کی کیا بات ہے۔ ملتان میں اپنے ہاتھوں سے کھڑی کی توپخانے کی میڈیم رجمنٹ کو ایک چاؤ کے ساتھ ٹل لے کر آئے۔ ایک نئی ریزنگ پلٹن میں پیش آتے ابتدائی ہچکولوں اور حشر سامانیوں سے ایک آہنی ہاتھ سے نپٹتے کرنل فرخ اپنی مثال آپ تھے۔ آپ وہی ہیں جو ٹل سی ایم ایچ میں جبکہ آرمڈ فورسز نرسنگ سٹاف کا ایک جھرمٹ اترا تو ایک رسان سے میٹرن کو یونٹ ٹی بار میں چائے کی دعوت دے آئے۔ حیرت ہمیں اس بات پر ہوئی کہ اگلے ہی روز نرسوں کا جھرمٹ تھری ایروز کی ٹی بارمیں بیٹھا افسروں کے ساتھ چائے پی رہا تھا۔ افسر کیا پی رہے تھے یہ تفصیل اتنا وقت گزر جانے کے سبب ہمارے دماغ میں کچھ کچھ دھندلا گئی ہے۔ ٹل گیریژن کی اکلوتی آرٹلری رجمنٹ کی ٹی بار میں سی ایم ایچ کی نرسوں کی چائے کا چرچا دیر تک زبان زدِ خاص الخواص رہا۔ خیر وہ ایک الگ قصہ ہے۔
کرنل فرخ مزاج اور زبان دونوں کے تیز تھے۔ دل کے جسقدر صاف زبان اسی قدر بلکہ اس کے کہیں زیادہ برعکس۔ اپنے یوسفی کے قبلہ کی طرح گالی تکیہ کلام تھی۔ گالیاں قبلہ کی طرح مقامی اورخانہ ساز تو نہ تھیں مگرفوجی ڈکشنری کی سپرلیٹوِ(superlative) ڈگری پر ضرور فائز تھیں۔ دیتے وقت اپنے سے سینیئر اور جونیئر کی تمیز نہیں کرتے تھے۔ اکثر فرماتے تھے کہ گالی دینا ایک آرٹ ہے۔ بعد ازاں اس نکتے کو یونٹ دربار میں ایک قضیہ نمٹاتے وقت انہوں نےکچھ اس طرح واضح کیا۔
مقدمہ یہ تھا کہ ایک حوالدار نے سپاہی کو گالی دی جس پر ثانی الذکر نے اول الذکر کو تھپڑ مار دیا۔ ٹل کی اس اجلی دوپہر، یونٹ دربار میں افسران، سردار صاحبان اور جوانوں کے بھرے مجمعے سے کرنل فرخ مخاطب ہوئے (صاحبو نقلِ گالی گالی نہ باشد PG-18 وغیرہ وغیرہ)
’دیکھیں ہم سب کبھی نہ کبھی گالی دیتے ہیں، آپ میرے منہ سے سارا دن گالیاں سُنتے ہیں۔ وہ گالی دینا اور طرح کا ہے۔ اگر میں ابھی کہوں نواز شریف بھین چود ہے، کچھ بھی نہیں ہوگا… نواز شریف ایتھے کھڑا ہوئے گا تے میری بنڈ پاڑ دئے گا۔ کسی بندے کو گالی دینے سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہ اگلے بندے کی بنڈ پھاڑنے کی کیا کیپیبِلٹی (صلاحیت) ہے‘
اب یہاں ہمارے ن لیگ کے سپورٹر دل کھٹا نہ کریں۔ بات یہ ہے کہ ان دنوں نواز شریف کی حکومت تھی، عمران خان کی ہوتی تو کرنل صاحب نے عمران خان کی مثال ہی دینی تھی۔ دیکھیے کرنل فرخ کا لچھے دار ذکر آیا تو بات کہیں کی کہیں نکل گئی۔ ہم تو رات کے اندھیرے میں فوجیوں کے قطب نما کے گم ہوجانے کی فطری کمزوری پر روشنی ڈال رہے تھے۔ لہڑی بند سے آگے ایک نادیدہ سرزمین کی یاترا پر روانہ ہونے سے کچھ دیر قبل طارق اسمعیل ساگر کے رنگ میں رنگی میجر چشتی کی بریفنگ (جس سے اس داستان کا آغاز ہوا تھا) نے صورتحال کو ایک عجیب غیر یقینی کا تڑکا سا لگا دیا تھا۔ گاؤں کا نمبردار جس سے ہم ابھی ملے بھی نہیں تھے کچھ کچھ ڈبل ایجنٹ لگنا شروع ہوگیا تھا۔ بریفنگ کا سب سے زیادہ اثر لانس نائیک امین نے لیا تھا۔ اس کے پاس لوڈڈ جی تھری تھی۔
ڈبل ایجنٹ نمبردار
ایک پل کو تو ہمیں لگا کہ وہ (لانس نائیک امین) ہمیں بھی مشکوک نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ رائفل کی نال بھی کچھ کچھ ہماری طرف تھی۔ نمبردار سے ملاپ کے بعد جب ہم نے نقشے کچھ سیدھے کر لیے تھے ہماری آبزرور پارٹی بند سے رینجرز بارڈر پوسٹ کے لیے روانہ ہوئی۔ محاذ گرم تھا اور ٹریسر بُلٹس کا پہلا برسٹ اور اس کی آتش بازی ہم نے لہڑی بند پر ہی دیکھ اور سُن لی تھی۔ وقفے وقفے سے برسٹ فائر چل رہے تھے اور کبھی کبھار بہت اوپر سے گزرتی گولیوں کی شائیں شائیں ایک ساکن رات میں بیک گراؤنڈ میوزک کا رنگ بھر رہی تھی۔ ستمبر 1965 کی صبح لاہور کے محاذ پر ایک واقعہ لیفٹیننٹ جنرل محمود نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے
دیال کے سرحدی گاؤں میں پاکستان کی 23 فیلڈ آرٹلری رجمنٹ کے آبزرور لیفٹیننٹ عبدالمالک نے واہگہ کی طرف سے فائرنگ کی آواز سنی تو جیپ لے کر نکلے۔ تھوڑی دور جا کرانہیں جی ٹی روڈ کے اطراف ایک اجنبی وردی میں ملبوس فوجی مارچ کرتے دکھائی دیے۔ یہ ہندوستانی فوج تھی۔ انہیں لیفٹیننٹ مالک کو جنگی قیدی بنانے میں دیر نہیں لگی۔
صاحبو بارڈر سے فائرنگ کی آوازیں تو آرہی تھیں مگر ہم جیپ پر نہیں بلکہ ایک بے اعتبار گائیڈ کے پیچھے پیدل چلتے چلے جا رہے تھے۔ ایک جنگی قیدی بننے کا اندیشہ ہمیں میجر چشتی کی بتائی نشانی کہ ہندوستان کی سرحد کے پار درختوں کے گھنےجھنڈ ہیں ایک اندھیری رات میں آنکھیں پھاڑے رکھنے پر مجبور کرتا تھا۔ اور ہمیں تو چو اطراف تھوڑی دوری پر گھنے درختوں کے جھنڈ سایہ کیے نظر آرہے تھے۔ کہیں بھی جائے مفر نہیں تھی۔ اتنے میں خاموشی سے پیدل چلتے نمبردار نے پہلا ریڈ فلیگ ریز کردیا (سرخ جھنڈا لہرا دیا)۔ سر مینوں اک شارٹ کٹ پتا اے، میری منو تے شارٹ رستہ لینے آں۔
لانس نائیک امین نے ایک جست بھری اور نمبردار کو دبوچ لیا۔ امین چارسدے کا پٹھان تھا۔ ویسے ہی لال سرخ رخسار میدانِ جنگ کی پختو میں مزید انار ہوگئے تھے۔ لال انگارہ آنکھوں کے ساتھ امین دہاڑا، خانہ خراب کا بچہ سیدھا چلتے ہو کہ ابھی ایدھر تمہارا لاش گرادے۔ ہمیں شارٹ کٹ نہیں چاہیے۔
نمبردار پہلے ہی بندوق کے نشانے پر آگے چلتے رہنے سے کچھ خوفزدہ سا تھا اس ڈائیلاگ پر تو بالکل ہی روہانسا ہو گیا۔ ہم نے اسے سیدھے راستے پر آگے بڑھنے کا کہا تو چل پڑا۔ کچھ فاصلہ مزید طے ہوا تو ہمیں لگا کہ نمبردار کی بے چینی کچھ کچھ بڑھتی جا رہی ہے۔ کچھ آگے چل کر وہ آگے بڑھنے سے ہچکچایا اور ایک لجاجت سے گویا ہوا۔ سر میری گل من لوو سدھا رستہ ڈینجرس اے شارٹ کٹ لے لینے آں۔
گل شیر نقشے پر اون پوزیشن نکالنے کی تگ ودو کر رہا تھا۔ امین پیچ وتاب کی حالت میں بل کھاتا بمشکل خود کو کنٹرول کرتا ہماری طرف دیکھتا تھا کہ ہم جاسوس نمبردار کو گولی مارنے کا حکم دیں۔ نظر کچھ کچھ اندھیرے میں دیکھنے کی عادی ہوئی اور ہم نے سامنے نظر دوڑائی تو ہمیں لگا کہ درختوں کا جھنڈ تو عین ہمارے سر پر آیا کھڑا ہے۔ اتنے میں نزدیک سے ہی ایک کتا بھونکا۔ تھوڑی دور ایک سرچ لائٹ آن ہو گئی اور آہستگی سے تین سو ساٹھ ڈگری کے زاویے میں گھومنا شروع ہوئی۔
ہمارے بالکل سامنے مورچوں کی قطار تھی، یوں کہ جیسے ہاتھ بڑھا کر چھو لیں۔
یہ کن کے مورچے ہیں
نمبردار بولا، سر ایہہ انڈیا اے !!!
8

رینجرز پوسٹ، اوپی ٹاور اور لارڈز کرکٹ گراؤنڈ
سخاوت کی پلٹن
فوجی مضمون ٹیکٹکس (tactics) جنگی حکمتِ عملی اور چالوں کی سکھلائی ہے۔ اس کا ایک سبق ہے کہ رات کے اندھیرے میں دو طرح کی آوازیں ایسی ہیں جنہیں سنتے ہی لازم ہے کہ آپ کے کان اور پھر آپ خود کھڑے ہوجائیں۔ ایک ’تھمپ‘ کی آواز اور دوسری ’ٹھک‘۔ اب ان دونوں صورتوں میں آئندہ کا لائحۂ عمل تھوڑا مختلف ہے۔
ساٹھ ملی میٹر مارٹر کے دہانے سے جب روشنی کا گولہ فائر ہوتا ہے تو گونجنے والی آواز ’تھمپ‘ اور روشنی کے گولے کا پیراشوٹ کُھلنے میں چند سیکنڈ کی مہلت مل جاتی ہے۔ سو تھمپ کی آواز سنتے ہی زمین پر گرکر ساکت ہو جائیں اور ساتھ ہی ایک آنکھ بند کرلیں۔۔
ٹھک کی آواز ویری لائٹ پسٹل سے آتی ہے جسکا روشنی والا کارتوس فائر ہوتے ہی پھٹ جاتا ہے۔ ’ٹھک‘ کی آواز اور روشنی کا شعلہ بلند ہونےمیں کوئی وقفہ نہیں سو زمین پر گرنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔ ویری لائٹ پسٹل کی آواز پر جس حالت میں ہیں اس میں ساکن ہو جائیں اور ایک آنکھ بند کرلیں۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ آپکے پی ایم اے پلاٹون کمانڈر آپکو ساری زندگی یاد رہتے ہیں۔ ہم اس بات کی گواہی دیں گے کہ پی ایم اے کے ہمارے تمام پلاٹون کمانڈرز ہمیں آج تک اپنی شخصیت، عہدے کی درشتگی، ملٹری اکیڈیمی کی ٹریڈ مارک سفاکیت اور ایک استادانہ احترام سمیت یاد ہیں۔ ہمیں تو اپنے سب سے پہلے پلاٹون کمانڈر (اسوقت کے) میجر سخاوت حسین سیال کا جنگی حکمتِ عملی کا پڑھایا ہوا وہ سبق جزئیات سمیت یاد ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔
میجر سخاوت ایس ایس جی کمانڈو تھے، وردی کی داہنی چھاتی پر میرون بارڈر والا کمانڈو ونگ اور ساتھ ہی یوایس آرمی رینجر سکول سے جیتا ہوا سلور پیراشوٹ بیج اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ دائیں بازو پر سکائی ڈائیور کا سنہری گوٹے کناری والا بیج جلوہ افروز تھا۔ میجر صاحب ایک سخت گیر کمانڈو تھے اور اتنے ہی سخت گیر نمازی۔ انکی پلاٹون پر نمازِ پنجگانہ کی باجماعت ادائیگی فرض تھی۔ سونے پر سہاگہ کراچی سے انکی پلاٹون میں آمدہ ایک فزیکل ٹریننگ میں کمزور لڑکا انہیں بالکل بھی قابلِ قبول نہیں تھا۔ ہماری فزیکل فٹنس میں بہتری لانے کا جو نسخہ انہوں نے تجویز کیا اس کی برکت سے لوہے کے دو ڈمبل (کسرت کے وزنی باٹ) تھرڈ پاکستان بٹالین کے جم سے ہمارے نام پر مستقل ایشو ہوگئے۔ سمال پیک میں ڈالے ان بھاری بھرکم کھردرے باٹوں پر مشتمل گناہوں کا بوجھ مستقل ہمارے کندھوں کا ہار بن گیا۔ پلاٹون کمانڈر آرڈرز کی رو سے ہم بارک سے باہر نکل کر کہیں بھی آتے جاتے اس سمال پیک کو کندھوں پر پہنے ڈبل کرنے (بھاگتے ہوئے جانے) کے پابند تھے۔ چوبیس گھنٹوں کے نظام الاوقات میں ہمارے کندھوں اور کمر کو سکون ایک مختصر وقفے کی صورت میں تب ملتا جب ہم وضو کرکے باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہوتے۔ یہ وہ واحد وقت ہوتا جب میجر سخاوت کے لیے دل سے دُعا نکلتی۔ ہمیں اس بات کا بڑا قلق تھا کہ مسلمانوں پردن رات میں صرف پانچ نمازیں ہی کیوں فرض ہیں۔ صاحبواللہ کے بندے ماریں یا چھوڑیں، اگر معراج کی رات عرشِ بریں پر بارگاہِ ایزدی سے لوٹتے محبوبِ خدا ﷺ کی ملاقات اللہ کے کلیم سے نہ ہوتی تو پی ایم اے میں ہماری پہلی ٹرم بہت مزے میں گزرتی۔ صبح شام ایک بے مہر لوہے کا وزن اٹھانے سے اور تو کچھ نہیں ہوا کندھوں سے کچھ نیچے ہماری کمر پر دو مستقل مزاج زخم بن گئے جو بھرنے پر دو اسی قدر پائیدار نشان چھوڑ گئے۔ پہلی چھٹی پر گھر آئے بنیان اتارتے پہنتے ہماری اماں کی نظر ان پر پڑی تو وہ تو روہانسی سی ہوگئیں۔ ہم نے یہ کہہ کر انکا حوصلہ بڑھایا کہ فوج میں افسر بننا کوئی بچوں کا کھیل نہیں تو ایک بھولپن میں انہوں نے وہ گہری بات کہہ ڈالی ’افسری چھڈ میرا پُت توں سانوں بندہ ای ٹھیک ایں‘۔
ڈمبل والے فارمولے نے کام نہ کیا اور ہم پہلی ہی ٹرم میں پی ٹی ٹیسٹ فیل کرنے پر ریلیگیٹ ہوگئے۔ بعد کی ٹرموں میں پی ٹی سٹاف کی انتھک محنت اور ہمارے پلاٹون میٹس کا تعاون وہ کام کرگیا جو میجر سخاوت کے ڈمبل نہ کرسکے تھے۔ معافی چاہتے ہیں، میجر سخاوت کا ذکر آیا تو بات ٹیکٹکس کے لیکچر سے کہیں کی کہیں نکل گئ۔ تو صاحب بات ہو رہی تھی ’تھمپ‘ اور ’ٹھک‘ کی اور دونوں صورتوں میں اختیار کیے جانے والے لائحۂ عمل کی۔ ہمارے جن پڑھنے والوں کے ذہن میں ایک آنکھ بند کرلینے پر سوال اُٹھ رہے ہیں تو بتاتے چلیں کہ ساٹھ ایم ایم مارٹر یا پھر ویری لائٹ سے فائر ہونے والے روشنی کے گولے میں شعلہ نکلتے ہی ایک چھوٹا پیراشوٹ کھُل جاتا ہے جو آہستگی سے نیچے آتا ہے تو محاذ کچھ دیر کے لیے اس چکا چوند سے روشن رہتا ہے۔ گولہ بجھنے کے بعد اچانک ہونے والی تاریکی میں بند رکھی جانے والی آنکھ دیکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے اور بینائی مکمل طورپر زائل ہونے سے بچائے رکھتی ہے۔۔
بارڈر کی وہ رات
ظفروال کی قربت میں لہڑی بند سے آگے کی اس رات خوش قسمتی سے دونوں آوازوں میں سے کوئی آواز نہیں آئی تھی، نہ تھمپ اور نہ ٹھک۔ جو آئی وہ کتا بھونکنے کی تھی جس نے یقیناً بے وقت ہماری پیش رفت کا برا منایا تھا۔ یوسفی کے ہمزاد مرزا کا قول ہے، جو شخص کتے سے نہیں ڈرتا مجھے اس کی ولدیت میں شبہ ہے۔ ہمیں مرزا کی اس انمول، آبِ زر سےلکھنے کے لائق رائے سے حرف بہ حرف اتفاق ہے مگر وہاں پیش آئی دبدھا کتے کے بھونکنے سے کہیں زیادہ سنگین تھی اور فی الوقت ہمیں گاؤں کے نمبردار کی ولدیت میں شبہ لاحق تھا۔
سرچ لائٹ آن ہونے اور اس کے گردشی چکر کے رواں ہونے تک ہم زمین پر گر کر ساکت ہو چکے تھے۔ ابتدائی چند ساعتوں تک تو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کرنا کیا ہے۔ سرچ لائٹ کے مینارۂ نور نے جب اپنا پہلا چکر مکمل کیا تو ہم اس کی روشنی کے حصار سے تو باہر تھے، مگر ہندوستانی مورچہ بند سپاہ کے ہتھیاروں کی فائری زد کے بالکل اندر تھے۔ حیرت ہمیں اس بات پر ہوئی کہ ابھی تک فائر نہیں کھلا تھا۔ ساری رات ہمارے مارچ کے دوران وقفے وقفے سے مشین گن کے برسٹ فائر ہوتے رہے تھے مگر اب محاذ پر ایک بھیگتی رات کا سکوت طاری تھا۔ محض شک کی بنا پر یا پھر روٹین میں ہی اگر اسوقت ہندوستانی ہتھیار آگ اگلنا شروع کرتے تو ہمارا بچنا مشکل تھا۔ اس رات قسمت نے یاوری کی اور کچھ دیر زمین پر ساکت رہنے کے بعد ہمارے اشارے پر اس گشتی پارٹی نے پیچھے کی طرف رینگنا شروع کیا۔ نمبردار اس لیٹی پوزیشن میں بھی امین کے ہتھیار کی زد پر تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ اس فیصلہ کن مرحلے میں امین نے صرف اس نیت سے خود کو فائرسے باز رکھا کہ آواز سے دشمن چوکنا ہوجائے گا اور رائفل فائر کا شعلہ ہماری لوکیشن کا بیچ بارڈر بھانڈا پھوڑ دے گا۔ مگر صاحب وہاں اگر نمبردار چاہتا تو آواز دے کر یا کسی اور طریقے سے انڈین سپاہ کو متوجہ کرسکتا تھا کیونکہ ہم تو ان کے دروازے پر تقریباً دستک دیے کھڑے تھے، مگر اس نے ابھی تک یہ نہیں کیا تھا۔ یا تو وہ خود شاک میں تھا یہ پھر کسی اور موقعے کے انتظار میں۔
کچھ آدھے گھنٹے کی صبر اور جسم آزما رینگنے کی مشقت کے بعد ہم کچھ آڑ میں آئے تو سطح زمین سے کچھ بلند ہو کر بیٹھنے کی عیاشی میسر آئی۔ لگے ہاتھوں جاسوس نمبردار کے بندوبستی اقدام کا سوچا۔ جھٹک کے اس ظالم کو جو اپنے سامنے کیا ہے تو صاحب اس کی شکل تو مجسم خوف تھی ۔ وہ ابھی تک شاک میں تھا اور کمبخت سے بات تک نہیں ہو پارہی تھی۔ تسلی کے دوبول اور پانی کے دو گھونٹ اس کے کانوں اور حلق میں انڈیلے تو چھوٹتے ہی بولا۔ سر اج تسیں مینوں مروا دِتّا سی، میرے نکے نکے نیانے تے اکو اک گھروالی اے۔ پنڈ وچ چار بندے میری عزت کردے نیں۔ کوئی جی توں سوا گل نئیں کردا۔ جدوں دے اسیں ٹرے آن تسیں مینوں اگّے لایا ہویا اے۔

صاحبو نمبردار کا شکوہ بجا تھا۔ یہاں اگر ہم علاقے کے نقشے کو پڑھیں تو حساب سیدھا سادا تھا۔ لہڑی بند سے آگے لنگڑیال (نام اور مقام بوجوہ تبدیل کردئیے ہیں) کے گاؤں سے نکلنے والا سیدھا راستہ پہلے تو عین بارڈر کے اوپر اس ٹی جنکشن کو ملتا ہے جو سرحدی چوکیوں کو ملانے والی کچی سڑک بناتی ہے۔ یہاں سے اپنی پوسٹ پر جانے کے لیے ہم نے بائیں مڑجانا تھا۔ مگر ہم بارڈر کے عین اوپر ہندوستانی چوکی کے کتے کے بھونکنے اور ہتھیاروں کے فائر کی زد میں آگئے تھے۔
لنگڑیال کے گاؤں سے ہی ایک پگڈنڈی نکلتی ہے جو گاؤں کے قبرستان اور جوڑا درخت کے درمیان سے گزرتی سیدھی رینجرز پوسٹ کو جا ملتی ہے۔ بارڈر سے دور چلتی یہ پگڈنڈی نسبتاً محفوظ راستہ تھا۔ اور یہی ہمارے نمبردار کا شارٹ کٹ تھا۔ اب آپ اس سیدھے سادے حساب میں میجر چشتی کی بریفنگ شامل کرلیں۔ جڑواں درخت پر رات کو درختوں کی قطار کا گمان اور اوپر سے شارٹ کٹ کا کوڈ ورڈ۔ ایک بھلے سے انگریزی محاورے کے مصداق، لنگڑیال کی اس جوبن پر آئی رات جو کچھ بھی گڑبڑ ہو سکتا تھا وہ ہو رہا تھا (Anything that can go wrong will go wrong)۔ ہمارے پڑھنے والے تو نقشے کو سمجھ لینے کی رعایت سے اب صورتحال کو بھانپ چکے ہیں، مگرایک شک کے دامن سے بندھے، رات کی تاریکی میں نمبردار کے بھروسے چلتے عمران، گل شیر اور امین ابھی تک ڈانواں ڈول تھے۔۔ لنگڑیال کا نمبردار سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے لانس نائیک امین کی بندوق کی نوک پر ہمیں ’صراطِ مستقیم‘ پر چلا ہندوستانی مورچوں کی عین ناک کے نیچے موت کے منہ میں لےآیا تھا مگر اب اس کی ہمت جواب دے گئی تھی۔ کچھ قسمت کی رعایت سے اور کچھ بروقت حفاظتی قدم اٹھاتے ہم فوری خطرے سے تو باہر نکل آئے تھے مگر پوسٹ تک پہنچنے کے لیے اب بھی اپنے گائیڈ کے محتاج تھے۔ نمبردار سے ہمارے روابط اب کچھ کچھ استوار ہوچلے تھے مگرصاحبو جب تک ہم نے رینجرز کی پوسٹ پر پہنچ کر سب انسپکٹر کے کمرے میں لٹکی اللہ محمد کی سینری اور خانہ کعبہ کی تصویر نہ دیکھ لی ہمیں قرار نہ آیا۔ ہمیں تب تک علم نہیں تھا کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی تھے۔
آبزرویشن ٹاور اور آزمائشی حلف
سر آپ کچھ نیند پوری کرلیں تو صبح تڑکے او پی ٹاور پر بھی چڑھنا ہوگا۔ آج کل چونکہ فائر چل رہا ہے تو دن کی روشنی میں ٹاور پر چڑھنا اترنا ٹھیک نہیں ہے۔
پوسٹ پر بخیریت پہنچ کر ہم نے ابھی بمشکل تشریف سیدھی اور پاؤں پھیلائے ہی تھے کہ رینجرز سب انسپکٹر نے اگلے دن کا گوشوارہ ہمارے گوش گذار کیا۔ چائے اور بسکٹ سے شغل کرنے کے بعد ہم نے گل شیر کے ساتھ ڈی ایف پلاننگ والے نقشے سیدھے کیے تو سوچا لگے ہاتھ آبزرویشن ٹاور کے بھی درشن کرلیں۔ ایک مختصر سے حدود اربعے میں جیسا کہ سرحدی چوکیاں ہوتی ہیں سامنے کی طرف ایک قدِ آدم دفاعی بند نظر سے آڑ اور فائر سے حفاظت مہیا کرنے کا کام کرتا تھا۔ ایک طرح سے یہ پوسٹ کا وانٹیج پوائنٹ تھا (وانٹیج پوائنٹ کا گوگل اردو ترجمہ ہے مقام نقطۂ افضل، خیر چھوڑیے) اور موجودہ صورتحال میں اس پر چڑھنے کا واحد مصرف خودکشی تھا۔ دوسرا نقطہء افضل وہ انتہائی اونچا مچان نما سٹیل ٹاور تھا جیسا کہ ہندوستان ۔ پاکستان کی ورکنگ باؤنڈری پر سیالکوٹ، جلال پور جٹاں اور کشمیر کے علاقے میں اکثر نظر آتے ہیں۔
لہردار اوپر جاتی سیڑھیاں، بلکہ بہت ساری سیڑھیاں اور اوپر سٹیل کی چادروں سے بنا ایک مچان نما کمرہ۔ مچان کے چواطراف سینڈ بیگ رکھ کر چھوٹے ہتھیاروں کے فائر سے حفاظت کا غیرتسلی بخش بندوبست کیا گیا تھا۔ باقی کے تمام تین سے چارمنزلہ فلور اور ان کو جوڑتی سیڑھیاں عام مشاہدے اور دشمن کی چاند ماری کی مشق کے لیے کسی بھی آڑ یا کیموفلاج سے یکسر بے نیاز، جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر چھوڑ دی گئی تھیں۔ سامنے کھڑے دفاعی بند کے مقابلے میں اوپی ٹاور ہمیں تو ایک اونچائی سے خودکشی کرنے والا آپشن لگا۔
ہم صبح ان سیڑھیوں سے ٹاور تک جائیں گے! دشمن کے عین سامنے بغیر کسی فائری آڑ کے!!
صبح فجر کے وقت دن نکلنے سے پہلے
کیا ہندوستانیوں کے پاس نائٹ وژن نہیں ہے یا وہ رات کو فائر سے پرہیز کرتے ہیں؟
نائٹ وژن تو انکے پاس ہے مگر اندھیرے میں ذرا دل کو تسلی رہتی ہے۔
ہم نے ایک غیریقینی کے عالم میں سب انسپکٹر کو دیکھا مگر وہاں چہرے پر سنجیدگی کے علاوہ ہمیں کوئی اور ایکسپریشن نظر نہیں آیا۔ ہم پوچھتے پوچھتے رہ گئے کہ بندۂ خدا ہمارا تمہارا مذاق ہے کیا۔
اس پوسٹ پر آبزرویشن ٹاور کے علاوہ کہیں اور سے ڈی ایف پلاننگ ممکن نہیں تھی اور ہمیں بھیجنے والے بالا کمانڈروں کو اس بات کا پورا علم اور مکمل احساس تھا۔ وہاں لنگڑیال گاؤں سے آگے پاکستان ہندوستان کی سرحد کی قربت میں محاذ کی گرمی میں بھیگتی اس سرد رات میں ہمیں پاکستان ملٹری اکیڈیمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ میں اللہ کو حاظر و ناظر جان کر سبز ہلالی پرچم کے سامنے اُٹھایا گیا اپنا حلف یاد آیا۔
میں، برّی، بحری یا فضائی راستے سے جہاں بھی جانے کا حکم ملا جاؤں گا۔
اور یہ کہ میں، اپنے متعین افسران کےقانون کے مطابق دیے گئے تمام احکامات کی تکمیل اپنی جان کو درپیش خطرات سے بے نیاز ہوکر کروں گا۔
اسی حلف میں عوام کی خواہشات کے مظہر آئینِ پاکستان کی حمایت اور کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں خود کو شریک نہ کرنے کی قسمیں بھی شامل ہیں مگر نفسِ مضمون کی طوالت کے خدشے سے ہمیں انکا ذکر حذف کرنا پڑ رہا ہے۔
تو صاحب جان کو درپیش خطرات سے بے نیاز ہوکر سر پر ہیلمٹ اور جسم کے دیگر حساس اور انتہای کارگر حصوں کو بلٹ پروف جیکٹ سے ڈھک فجر کی نماز کے بعد بغل میں نقشوں کا پلندہ اُٹھائے ہم اوپی ٹاور کی سیڑھیوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ رینجرز سب انسپکٹر نے ہم سے کہا کہ سر پہلے میں اوپر جاتا ہوں، فائر آنے کی صورت میں اوپر مچان پر بیٹھا رائفل مین کور کرے گا اور آپ رُک جائیے گا۔ اس صورت میں ٹاور پر جانے کا منصوبہ بعد کے کسی مناسب وقت تک ملتوی کرنا پڑے گا۔ سب انسپکٹر ایک سُرعت کے عالم میں سیڑھیاں چڑھ یہ جا وہ جا مچان پر پہنچ گیا اور ہمیں اوپر آنے کا اشارہ کیا۔ آپ سے جھوٹ نہیں بولیں گے۔ آدھے راستے کی سیڑھیاں چڑھتے تو ہم اس انتظار میں رہے کہ سب انسپکٹر کی ڈرائی رن پر اپنی شستیں سیدھی کرنے والے ہتھیار کب ہم پر فائر کھولتے ہیں۔ باقی کے آدھے راستے ہم سطحِ زمین سے اسقدر بلندی پر آچکے تھے کہ فیصلہ نہیں کرپارہے تھے کہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والی کونسی صورت زیادہ سہل ہوگی۔ گولی لگنے سے وفات پانے والی یا اس کے دھکے سے نیچے گر کر جاں بحق ہونے والی۔
کبھی سوزوسازِِ رومی کبھی پیچ و تابِ رازی
دن کا بقیہ حصہ کسی قابلِ ذکر واقعے کے بغیر گزرا۔ آبزرویشن ٹاور کی بلندی پر بیٹھے دوربین کی مدد سے زمینی نشانات کو نقشے پر مارک کرتے ہم نے سامنے کے مورچوں سے ہندوستانی بارڈر سیکورٹی فورس کے جوانوں کو آتے جاتے دیکھا۔ سامنے ان کا او پی بھی ہماری آمدورفت کو ایسے ہی دیکھ رہا ہوگا۔ اس دن سرحد پر فائر نہیں ہوا۔ صاحبو سرحد پر آمنے سامنے نظر سے نظر ملائے جب دونوں فریق موقع پا کر فائرنگ کی راہ اپناتے ہیں تو ایک دوسرے کی ٹکر کا جانی اور املاک کا نقصان کرتے ہیں جس کے لازمی نتیجے میں طرفین کا روز مرہ کا معمول ایک تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی اس کی قیمت دونوں اطراف کے فائر کی زد میں آئے معصوم سویلین ادا کرتے ہیں۔ ایک مستقل مزاج ہٹ دھرمی سے ایک دوسرے کو برابر کی ضرب لگانے والی یہ انجمنِ نقصانِ باہمی آج بھی اسی جذبے سے جاری و ساری ہے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے والی الزام تراشی کی روش بھی۔ نہ انڈیا کشمیرپر اپنے موقف میں لچک دکھاتا ہے اور نہ ہی ہم آزاد کشمیر سے آگے کے کسی علاقےپر قابض ہونےمیں کامیاب ہوسکے ہیں۔ کچھ بھی کھانے پینے سے ہٹ کر گلاس توڑنے کے بارہ آنے دونوں ملک برس ہا برس سے ادا کررہے ہیں۔ لوگوں کو کشمیر کے مسئلے کی پائیداری کا اسقدر یقین ہے کہ اس کے حل ہونے تک ادھار بند کررکھا ہے۔
ہم جب جون کی اس جلتی دوپہر سیالکوٹ ۔ شکرگڑھ کے محاذ پر ڈی ایف پلاننگ کررہے تھے تو یہ مسئلہ کشمیر کی ہی اگلی کڑی کارگل کی جنگ کے نتیجے میں ایک متوقع ہندوستانی حملے کی پیش بندی تھی۔ مسئلہ کشمیر حل ہونا تھا یا نہیں اس سے قطع نظر دن کے اختتام پر ہندوستانی سپاہ کی جارحیت کو ایک منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہمارا ڈی ایف پلان تیار تھا۔ شام کے جھٹپٹے میں آبزرویشن ٹاور کی سیڑھیاں ہم صبح کے مقابلے میں ایک اعتماد سے اترے۔ دشمن کو شاید ہمارا تیقن پسند نہیں آیا کہ عشاء کے آس پاس اچانک فائرنگ دوبارہ شروع ہوگئی۔ پہلا برسٹ کس طرف سے فائر ہوا تھا اس سے قطعِ نظر اب وقفے وقفے سے فائرپریکٹس جاری تھی۔
ظفروال سے لارڈز
ہم نے فیلڈ ٹیلیفون پر ظفروال میں میجر چشتی سے بات کی تو انہوں نے کچھ دیر ٹھہرنے اور فائر نہ رکنے کی صورت میں ظفروال واپسی کو اگلی رات تک ملتوی کرنے کا آپشن دیا۔ ہماری رہبری کے لیے ہمارا دوست لنگڑیال کا نمبردار رات ہوتے ہی چوکی پر آگیا تھا۔ ہم دوطرفہ فائر میں ایک متوقع مہلت کی آس میں انتظار کی سولی پر لٹک گئے۔ آپس کی بات ہے ہم اسی رات ظفروال واپسی کے لیے بے تاب تھے اور اس کی معقول وجہ بھی تھی۔
ابھی دو دن پہلے 1999 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کا سیمی فائنل مقابلہ ہم نے اگوکی میس کے ٹی وی روم میں دیکھا تھا۔ شعیب اختر کی تباہ کن بولنگ اور سعید انور کی دھواں دھار بیٹنگ نے کیویز کو تقریباً یکطرفہ مقابلے میں پچھاڑ دیا تھا اور پاکستان ٹیلی وژن پر میچ ختم ہونے کے بعد اس ملی نغمے کے سروں پر ہم بھی جھنڈا اٹھائے 14 عباسیہ میں ایک جوش کے عالم میں گاتے پھرے تھے
دنیا کے میدانوں میں
اونچے آسمانوں میں
چمکے یہ چاند تارہ
چمکے اک بار دوبارہ
اب لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستان ۔ آسٹریلیا کا فائنل ہونے جارہا تھا۔ جو ہم صرف ظفروال کینٹ میں دیکھ سکتے تھے جہاں ٹیلیویژن نشریات کی سہولت دستیاب تھی۔
صاحبو 1999 کرکٹ ورلڈ کپ سے ہماری دو یادیں جڑی ہیں۔ ٹورنامنٹ کی تیاری کے سلسلے میں لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں بنے ایک نئے میڈیا سینٹر کی بڑی دھوم تھی۔ نرسری اینڈ کی سمت ایک جدید ڈیزائین میں تعمیر کیے گئے اس میڈیا سینڑ کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے کوئی اڑن کھٹولا ہوا میں معلق ہے۔ ہمارے دل کے نہاں خانے میں کہیں لارڈز کے اس میڈیا سینٹر کو دیکھنے کی خواہش بیٹھ گئی تھی۔
جون کی ایک حبس زدہ رات میں سرحد پار کے فائر سے بچتے بچاتے کچھ رینگتے اور کچھ چلتے جان ہتھیلی پر رکھ جو فائنل میچ دیکھنے ہم بروقت ظفروال گیریژن پہنچ گئے تھے اس کا اب کیا ذکر کریں۔ ہم تو کھل کر اس ٹیم کو گالیاں بھی نہ دے سکے کہ اس سے پہلے ہی وہ اپنے کوٹے کے 132 رنز بنا کر ڈھیر ہوگئی۔
ہماری لارڈز کرکٹ گراؤنڈ کا میڈیا سینٹر دیکھنے کی خواہش لگ بھگ چھ سال بعد تب پوری ہوئی جب ہم برطانوی فوج کےساتھ ایک مشترکہ جنگی مشق میں حصہ لینے انگلستان کے مسافر ہوئے۔ ایک ویک اینڈ پر جب ہم لندن کے گلی کوچوں کو قدموں سے ناپنے نکلے تو ایک چکر لارڈز کا بھی لگا آئے۔
وہاں میڈیا سینٹر کو واقعتاً اپنے سامنے دیکھتے ہوئے ہم نے ظفروال گیریژن، لنگڑیال کے جاسوس نمبردار اور ایک سرحدی چوکی کے اوپی ٹاور کی بلند مچان کوبہت یاد کیا ۔۔۔
9

ٹھاکردوارہ کے مورچے، اور چیمبر میں گولی
جرپال کا راجہ
ظفروال سے شکر گڑھ کی شست باندھیں تو سڑک کے شمال کی ذیلی زمینوں میں جہاں بسنتر نالہ ایک گھمن گھیری لیتا اپنا پتن کچھ کچھ چوڑا کرتا ہے، جتنا کہ ایک نالے کی پتن چوڑا کرنے کی استعداد ہے، وہیں رُکھوں کا ایک جھنڈ چوکس کھڑا ہے۔ یہ جھنڈ دسمبر 1971 کی اُس کور چشم ٹھنڈی سویر بھی اِدھرہی تھا اور اس کی اوپری حد کی طرف درختوں کی قطار کے شانہ بشانہ 35 فرنٹیئر فورس (The Charging Bulls) کے جوان چھاتی چوڑی کیے حملہ کرنے کو پر تولتے تھے۔ دن کی روشنی چارسو پھیل چکی تھی اور توپخانے کی فائری سپورٹ کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ مگر ہمارے سپاہی اب پلٹنے والے نہ تھے کہ انہیں حملہ کرنے کا حکم تھا۔ محاذوں پر حملہ کرنے والوں کو حکم بجا لانا ہوتا ہے۔ وہ جان دیتے وقت ضروری اور غیر ضروری کسی طرح کے سوال وجواب کے خوگر نہیں ہوتے۔
Theirs not to make reply,
Theirs not to reason why,
Theirs but to do and die
آج بھی ظفروال اور اس کے نواح میں دن ڈھلتا ہے تو رُکھوں کے اس جھنڈ کے لمبے ہوتے سائے سیدھا سامنے کے گاؤں جرپال میں سنگِ سُرخ سے بنی ایک یادگار پر پڑتے ہیں۔ آپ اگر جرپال کے مسافر ہوں تو گاؤں کی سرحد پر چاردیواری کی حفاظت میں ایک یادگار کھڑی ہے۔ سُرخی مائل پتھر سے بنی ایک دیوار ہے جو سوراخوں سے چھلنی ہے جیسے اس نے گولیوں کی باڑھ اپنے اوپر سہی ہو۔ 17 دسمبر 1971 کی اس سویر ہمارے شیر دل جوانوں کی چھاتیاں بھی اس یادگار کی طرح چھلنی تھیں۔
یادگار کے ماتھے کا جھومر ایک قرآنی آیت ہے جو اللہ کی راہ میں جان دینے والوں کی ابدی زندگی
کی بشارت دیتی ہے۔ نیچے ایک عبارت ہمیں بتاتی ہے
35 فرنٹیئر فورس کے ان 60 سپوتوں کی یاد میں جنہوں نے اپنی جان کا نذرانہ مادرِ وطن کی حفاظت عزت و بقا کے لیے اس مقام پر پیش کیا
ہندوستانی 3 گرینیڈیئرز کے ہتھیاروں اور پُونا ہارس کے ٹینکوں کے گولوں اور گولیوں کی باڑھ اپنے اوپر سہتے ان سینہ فگاروں کے ہراول دستے میں سب سے آگے یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل اکرم راجہ شہید تھے۔
ہندوستانی سپاہ نے جب اپنے خون میں نہایا 35 ایف ایف کے کرنل راجہ کا جسدِ خاکی ہمارے حوالے کیا تو اس شان سے کہ کرنل کے بازو اسٹین گن اٹھائے اسی پوز میں اکڑ گئے تھے۔ ہمارے دلیر دشمن نے یہ کہہ کر کرنل اکرم راجہ کی بہادری کا اعتراف کیا کہ ’یہ بہادر کرنل موت کو سامنے دیکھ کر بھی نہیں پلٹا‘۔ پاک فوج نے کرنل اکرام راجہ کو بہادری کا دوسرا بڑا اعزاز ہلالِ جرات عطا کیا۔
17 دسمبر کی اس صبح جبکہ سیز فائر کچھ گھنٹوں کے فاصلے پر تھا، دن کی روشنی میں توپخانے کی فائری مدد کے بغیر یہ حملہ ایک طرح سے خودکشی تھی۔ کسی واضح دفاعی مقصد کے حصول کے بغیر اپنی سپاہ کو یوں جنگ کی بھٹی میں جھونک دینا سراسر فارمیشن کمانڈروں کی حماقت تھی، جسکی جواب طلبی کی جانی چاہیے تھی۔ مگر اور بہت سے جواب طلب معموں کی طرح یہ سوال بھی جرپال کی خون پلائی زمین پر اپنے قاتلوں کا سُراغ تلاش کررہا ہے۔
ہمارے دوست ہیں محمد حسن معراج۔ پی اے ایف کالج سرگودھا میں لخت لخت اپنی یادوں کو یکجا کرتے ہیں تو اسی مضمون میں اپنے شہید دوست معظم علی خاور کو بھی یاد کرتے ہیں۔
’2012 میں معظم علی خاور کا جہاز زمین پہ گرا، گڑھا، مگر ہمارے دلوں میں پڑ گیا اور ایسا گہرا کہ ہزار خوشیوں سے بھی نہیں بھرتا‘۔
صاحبو جہاز گرنے پر مادرِ وطن کی کوکھ میں پڑنے والے گڑھے ہوں یا پھر دشمن کی گولیوں سے چھاتی میں ہونے والے چھید، اس پاک سرزمین کی قوم، ملک اور سلطنت کے دل میں ایک بے انت خلا چھوڑ جاتے ہیں جو ہزار خوشیوں سے بھی نہیں بھرتا۔
1971 کی اس سرد سویر سے ہم 1999 کی گرمیوں میں آتے ہیں جب شکرگڑھ بلج میں اسی جرپال ۔ بڑا پنڈ لوہٹیاں کی زمینوں کو توپخانے کی ایک بیٹری پلٹتی تھی کہ محاذ گرم ہوا چاہتا تھا۔ جیٹھ ہاڑ کی وہ رات بہت لمبی ہونے والی تھی، جب سورج غروب ہونے کے بعد ہم اپنی بیٹری کی چھ توپیں لے کر محاذ کے مسافر ہوئے۔ گرداس مان نے ایک گانے میں جہاں ایک موڑ پر آکر بھول جانے اور اپنے متر کو ’لمّی سیٹی‘ مارنے کی درخواست کا ذکر ہے اپنی دبدھا کچھ یوں بیان کی ہے
پہلے موڑ تے ٹھاکر دوارہ، دوجے موڑ تے گردوارہ
تیجے موڑ تے مسجد مندر، جاواں کس دے اندر
ہمارے لیے اس رات راستے کی بجھارتیں بہت زیادہ مشکل نہیں تھیں، سو درمان منڈی کے سٹاپ سے آگے پہلے ہی موڑ پر ٹھاکر دوارہ میں ٹھہر گئے۔ یہیں ہم نے رات کی رات میں مورچے کھود کر دن کی روشنی سے پہلے خود کو ان میں گم کرلینا تھا۔ ایڈوانس پارٹی میں پہنچے صوبیدار صاحب نے لوکل معاونت سے کچھ ٹریکٹروں کی مدد سے مورچوں کی کچھ نشاندہی کردی تھی اور تھوڑی بہت شکل نکال دی تھی۔ اب گینتی بیلچہ تھا، کُک ہاؤس کے ٹینٹ میں پکتا اشتہا انگیز لپٹیں مارتا حلوہ تھا اور ہماری بیٹری کے جوان تھے۔ حلوے کی موٹیویشن سے پرے ایک چیز اور تھی اور وہ تھا جی پی او (گن پوزیشن آفیسر) کا یعنی ہمارا ٹیپ ریکارڈر۔
اگوکی کے بی او کیوز کی ایک شام گیمز سے واپسی پر یونٹ ایجوٹنٹ نے، جن کے ہم روم میٹ تھے ایک بے تابی کے عالم میں اعلان کیا تھا۔ یار مانی آج ایک خاصے کی چیز ہاتھ لگی ہے۔ منصور ملنگی کا اک پھُل موتیے دا مار کے جگا سوہنیے۔ کیسٹ کی سائیڈ اے پوری کی پوری، مکمل گیت۔ اگوکی کی ایک گُل ہوتی شام اور چشمۂ مہتاب سے دُھل کے نکلتی رات ہمیں منصور ملنگی کے سُروں کے صدقے یاد ہے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہم ملنگی کے اس لازوال ماہیے (صاحبو آپ اسے گیت کہہ لیجیے مگر رہے گا تو یہ ایک بے مثال ماہیوں کا تسلسل ہی) کی زنجیر سے بندھ گئے۔ ہمارے کان اس میٹھی دُھن اور اس سے بھی میٹھی بولی سے ان گنت بار آسودہ ہوئے اور اللہ زندگی رکھے آنے والی شاموں میں، جتنی کہ عمر کے پیمانے میں رہ گئی ہیں محظوظ ہوں گے۔ محاذ پر روانگی کی اس رات آپریشنل انسٹرکشنز کے ساتھ ایز انیکسچر اے (annexure A) ایڈجوٹنٹ نے وہ آڈیو کیسٹ بھی ہمیں تھما دی تھی۔
ٹھاکردوارے کی فرہادی زمینوں میں پھاوڑے اور بیلچے کی مشقِ سخن جاری تھی۔ ظفروال کی اپنےہی خمار میں بھیگتی رات کو سرحد پارسے آئے بادلوں کی سنگت میسر آگئی تھی اور کچھ کچھ ’نکی نکی کنڑی دا مینہہ ورسیندا۔ پُوہر جیہی ہے پیندی‘ والا ماحول تھا۔ اس مورچے سے اس مورچے تک کا سفر کرتے، گینتی پکڑ انگلی کٹا شہیدوں میں نام لکھواتے گن پوزیشن آفیسر کے کندھوں پر جھولتا ٹیپ ریکارڈر تھا، جس میں سائیڈ اے والی ایجوٹنٹ کی بخشی آڈیو کیسٹ تھی، جس کے سپیکر جب بجتے تھے تو ان میں ملنگی کی ہوُک تھی جو کانوں میں رس گھولتی تھی۔
کوئی موڑ طلب کولوں
ڈسنڑ دے قابل نئیں
جیویں پِنیا اے رب کولوں
جاواں صدقے گلے دی ہسیے
جھُگّی پا رل اکٹھیاں وسیے
اک پُھل موتیے دا مار کے جگا سوہنیے
جہلم سے باہر نکلیں جبکہ آپکا رُخ دینہ کی طرف ہو تو ایک سڑک سینٹرل آرڈیننس ڈپو (س او ڈی) کالا کو نکلتی ہے۔ ایک نسبتاً گرم سویر جب سورج ابھی نکلا ہی تھا میں عباسیہ کے ڈھائی ٹن ٹرکوں کا ایک قافلہ لے کالا ڈپو کا مسافر تھا کہ جرپال ۔ بڑاپنڈ کی زمینوں میں جنگ کو جاتی میری بیٹری کو فرسٹ لائن ایمونیشن درکار تھا۔ جی ٹی روڈ سے اتر کر یہ قافلہ کچھ دیر کو ٹھہرا تو جیسا کہ فوجی کانوائے کی ڈرل ہے ہم نے ایک حوالدار اور تین سپاہیوں پر مشتمل ایک حفاظتی ٹولے کو پوزیشن لینے کا حکم دیا۔ سامنے کے رُخ پر لیٹے چابکدستی سے رائفل کاندھے پر تانے اپنے سپاہی سے ہم نے حال احوال کیا تو عقدہ کھلا کہ رائفل میں گولیاں تو ہیں ہی نہیں۔ اور یہی عالم بقیہ دو سنتریوں کا تھا۔ تفتیش کرنے پر پتہ چلا کہ گولیاں تو ساری کی ساری سربمہر ڈبوں میں بند گارڈ کمانڈر حوالدارکے پاؤچ میں ہیں۔ سیاچن کے محاذ سے نیچے اترتے ہی پلٹن نے زمانۂ امن کی کسلمندی کو اپنانے میں دیر نہیں لگائی تھی۔
صاحبو! وہ بھی کیا بھلے دن تھے۔ رائفل رینج پر فائر کی گئی گولیوں سے زیادہ کھوکھے قیمتی ہوتے تھے کہ پریکٹس کے بعد انہی کو جمع کروا کر ہر چلائی گئی گولی کا محکمے کو حساب دینا ہوتا تھا۔ چھاؤنیوں میں یونٹوں کی نائٹ گارڈ کے سنتریوں کے پاس پانچ / چھ فٹ کی لاٹھی نما سٹک ہوتی تھی جسے وقت پڑنے پر ایک سُرعت کے عالم میں سامنے تان دھاڑ نما آواز میں رات کی گارڈ چیک کرنے آئے ڈیوٹی افسر کو للکار کر روکا جاتا
رُک !!! ہاتھ اوپر!
پہچان کے لیے دو قدم آگے چل! رک!
(ہلکی آواز میں) آپ کون ہیں؟
جس پر ڈیوٹی افسر جواب دیتا ’دوست‘
گزر جاؤ دوست
یہاں ہمارے پڑھنے والے سوچیں کہ شاید ہم مذاق کررہے ہیں، مگر حقیقت یہی ہے کہ اس ایک مکالمے میں زمانۂ امن میں دوست دشمن کی تمیز کے کوڈورڈ کا سموچا لیجر پرویا ہوا تھا۔ فوج سے کسی کو خطرہ نہیں تھا اور فوج کو پاک سر زمین کی حدود میں کسی سے خطرہ نہیں تھا۔ دہشت گردی کا عفریت ابھی ہم سے چند سالوں کی دوری پر تھا۔ اس ملک کے نمک کھلائے سوویت یونین کی جنگ لڑتے مجاہدوں کو اپنے آقاؤں کی طرف پلٹنے اور انہی پر وار کرنے میں ابھی دیر تھی۔ ڈرون حملے اور اے پی ایس کے شہید بچے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔ زندگی کے ہاتھ میں گزرا وقت ایک ایسا مرہم ہے جو بہت سے دُکھوں کا علاج کرتا بہت سے زخم بھردیتاہے۔ مگر دیدہ ورو، کچھ غم آفاقی ہوتے ہیں وہ ہمارے دلوں کے ساتھ ہماری قبروں میں جاتے ہیں۔
یا غم نہ دیا ہوتا، یا دل نہ دیا ہوتا
بات کسی اور طرف نکلی جاتی ہے۔ تو ہم کہہ رہے تھے کہ سرحدوں کے اندر ابھی دوست دشمن کی تمیز ختم نہیں ہوئی تھی اور فوج ابھی مسلسل حالتِ جنگ میں نہیں آئی تھی۔ گولیاں ہماری رائفل کے چیمبر میں نہیں بلکہ گارڈ کمانڈروں کے پاؤچ میں ہوا کرتی تھیں۔ آنے والے برسوں میں فوج نے ایک بدلتے ہوئے نصاب کو اپنا خون پلا کر یاد کرنا تھا اور بہت اچھے سے یاد کرنا تھا۔ مگر اس میں ابھی دیر تھی۔
جہلم سے آگے کالا کی اس گرم صبح اپنی بیٹری کے جوانوں کو یہ سکھلانے میں کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور اپنی پہلی دفاعی لائن کا گولہ بارود لینے آئے ہیں، ہمیں کچھ وقت لگا۔ مگر ٹھاکر دوارے کی مورچہ بند سپاہ جب اپنے اپنے گولے بارود کو سینے سے سینچ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی تو انہیں یہ سبق سیکھنےمیں زیادہ دقت پیش نہیں آئی۔ سیاچن کے محاذ کی روٹین بیٹری کو یاد تھی اور ہم آرٹلری کے گولے توپوں کے دہانوں کے لیے تیار کر کے اپنے انفرادی پستول اور رائفلوں کی لوڈڈ میگزین میں گولیاں پرو کسی بھی ناگہانی سے نمٹنے کے لیے ہرگھڑی تیار کامران تھے۔
ہم سے کچھ آگے سرحد پر ریڈ الرٹ کا عالم تھا۔ بھارتی سینا کی نقل و حرکت کے ساتھ ساتھ افواہوں کا بازار بھی گرم تھا۔ ہمارے بیٹری کمانڈر میجر نقوی نے ہمیں خاص طور پر خبردار کیا تھا کہ انڈین کمانڈوزسرحد پار گوریلا طرز کی کارروائیاں بھی کریں گے۔ ہم رات کو کمانڈ پوسٹ کے کیمپ کاٹ پر سونے لیٹتے تو احتیاطاً بھرا ہوا ریوالور سرہانے کے نیچے رکھ لیتے۔ ایک صبح ہمارا ایم ٹی حوالدار ویگن لائن سےآل اوکے دینے ہمیں آیا تو ہم ابھی تک سوئے ہوئے تھے۔ شاید وہ کوئی ہیجان انگیز خواب تھا جہاں بلیک کیٹس کے پرے کے پرے چاقو لہراتے ہماری پوزیشن پر حملہ آور تھے اور ہم اپنے جانثار سپاہیوں کے ساتھ ایک کمال مشاقی اور مہارت سے سنگینیں چلا انہیں دھڑادھڑ تہہِ تیغ کررہے تھے کہ ایم ٹی حوالدار نے ایک دو آوازوں کے بعد ہمیں جھنجھوڑ کر جگانے کی کوشش کی۔ اک سُرعت کے عالم میں تکیے کے نیچے سے ریوالور نکال ہم نے اسے جا لیا۔ ہاتھ اوپر! کون ہو تم!
سامنے کھڑے ایم ٹی حوالدار نے ہاتھ اُٹھائے ہوئے تھے۔ اس کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں نمودار ہوچلی تھیں اور وہ ایک بے اعتباری کے عالم میں ہمیں دیکھ رہا تھا۔ اس دن کے بعد سے ہم ریوالور کی گھومنے والی چرخی سے پہلا کارگر راؤنڈ (گولی) نکال کر سونے لگے کہ کہیں میدانِ جنگ کی ہربڑاہٹ میں اپنا فوجی ہی نہ شہید کردیں۔
ہمارا بڑا دل تھا کہ اس کہانی کو جنگ اور اس سے متعلقہ مہم جوئی سے آراستہ کرتے، ٹھاکردوارہ کے شب وروز میں سرحد پار سے چاند ماری کی گوٹا کناری لگاتے اور برسبیلِ تذکرہ دو ایک گھاتوں یا پھر اسی قدر ہلّوں سے مرصع کرتے اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں ایک بارہ مصالحے کی چاٹ پیش کرتے مگر صاحبو جنگ کو نہ ہونا تھا نہ ہوئی۔ اور تو اور وہ بلیک کیٹس بھی نہ آئے جنکے متوقع استقبال کے لیے ہماری گولیاں ریوالور کی چرخی میں پروئی ہوئی تھیں۔
تم آئے ہو، نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے
صاحبو ایک دفعہ محاذ آرائی کے بعد اگر جنگ نہ ہو تو اس شبِ انتظار کی سحر (محاذ پر مورچہ بند سپاہ) کے لیے بہت خوش آئند نہیں ہوتی۔ زمانۂ امن سے جنگی حالت اختیار کرنے میں خرچ ہوئے سوہنی دھرتی کے ٹیکس دہندگان کے پیسوں کا تخمینہ نکال فوج وہ پیسے سود سمیت پورے کرواتی ہے۔ مورچوں سے نکل کر سپاہی کینوس کی دنیا میں آجاتے ہیں اور اگلے چھ ماہ ایک سال کے لیے ایک تمبو قناتی رہائش میں بیٹل ڈرلز اور ٹریننگ فوجیوں کا مقدر ٹھہرتی ہے۔
اس دفعہ تو جنگ کے بادل جلدی چھٹ گئے تھے کہ ابھی تک صرف ہماری پاپا بیٹری ہی جنگی حالت میں محاذ پر نافذ ہوئی تھی۔ باقی کی پلٹن ابھی تک اگوکی میں تھی۔ سو پسِ جنگ آبادکاری کے براہِ راست متاثرین میں گن پوزیشن آفیسر یعنی ہم اور ہمارے جوان تھے۔ آنے والے دنوں میں بیٹری نے مورچوں کو خیرباد کہہ کر کچھ گورنمنٹ سکولوں کے احاطے میں ڈیرے ڈالنے تھے اور بیٹری کمانڈ کرنے کو وقتاً فوقتاً عباسیہ کے میجر حضرات نے ٹریننگ ایریا میں رونق افروز ہونا تھا۔ وہ اس لیے کہ اس ایکسٹنڈڈ ٹریننگ روٹین میں ریلیف شادی شدہ حضرات کو ہی ملنی تھی، ہم جیسے چھڑے چھانٹوں کے نصیب میں ظفروال اور لہڑی بند ہی تھا۔ درمان میں میجر اظہر آئے تو ان کے دن کا آغاز نہار منہ سامنے کے نلکے سے بالٹی بھر کر اپنے اوپر انڈیلنے سے ہوتا تھا۔ میجر صاحب اسے اشنان کرنا کہتے تھے۔ ان کا زندگی کرنے کا قرینہ سادہ تھا۔ پہلے اشنان پھر پاکستان۔ ابھی تک ایک ملٹری ڈکٹیٹر نے ملک کی باگ دوڑ نہیں سنبھالی تھی اور پاکستان کے متعلق میجر اظہر کے نصب العین سے متصادم ایک نیا نعرہ ابھی ہمیں ملنا تھا۔ کیا اس نعرے کے بعد میجر اظہر نے بھی اپنے نظام الاوقات پر نظرثانی کی؟ یہ تو اللہ تعالیٰ یا پھر میجر اظہر جانتے ہیں۔
بڑی منہاساں میں جبکہ ابھی توپیں مورچوں میں اور جوان ان کی ہمراہی میں تھے ہم نے مقامی سکول کے ایک کمرے میں انفورمیشن روم کا حیلہ کرلیا تھا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں میجر نقوی نے جوانوں کی تفریحِ طبع کے لیے ایک فلم دکھانے کا انتظام کیا تھا۔ سیالکوٹ چھاؤنی کے مون فیس آڈیو ویڈیو سینٹر کے ریکس سے وال کلمر کی دا سینٹ (The Saint)، کیون کوسنر کی میسج ان آ باٹل(Message in a Bottle) اور ٹین تھنگز آئی ہیٹ اباؤٹ یو(Ten Things I Hate About You) ڈھونڈ نکالنے والے میجر نقوی کی نگہِ انتخاب جس ویڈیو کیسٹ پر ٹھہری اسے دیکھ کر ہم کچھ ٹھٹھک سے گئے۔ بڑی منہاساں کے انفورمیشن روم میں پاپا بیٹری کے جوانوں کے لیے جس فلم کا شو ہونے جارہا تھا وہ تھی باہو فلمز کارپوریشن کی پیشکش مولا جٹ!

