بن قاسم کا جھوٹ
کراچی سےباہرنکلیں اورساحلی پٹی کےساتھ چلتی کوسٹل ہائی وے پکڑلیں تولگ بھگ ڈیڑھ سومیل کےفاصلےپرکنڈملیرسےذراپہلےاگور آتاہے۔ وہیں سڑک سےتھوڑاہٹ کرایک پہاڑی کےاوپرریتلےپتھرپرنقش ونگارسےمزین کچھ ثابت وسالم اورکچھ شکستہ قبریں ہیں۔ ساتھ کھڑی سبز رنگ میں رنگی ایک دیوار ہمیں بتاتی ہے کہ یہاں آٹھویں صدی عیسوی میں سندھ پر حملہ آور ہوئی محمد بن قاسم کی فوج کے سپاہی دفن ہیں۔
پار سال ہمارے دوست ڈاکٹر سید مزمل حسین (شہاب الدین غوری کے مقبرے والے ڈاکٹر مزمل) اپنے گروپ وسیب ایکسپلوررز کے ساتھ ملتان سے براستہ کراچی گوادر اور پاک ۔ ایران سرحد تک گئے تو ان مزارات کی خبر لائے۔ ان کی ٹیم نے ایک عقیدت کے عالم میں باقاعدہ بینر کے ساتھ تصویریں کھنچوائیں۔ سبز رنگ کی دیوار کے ساتھ عرس کے بقیہ لوازمات پورے ہیں، ہمیں تو شک ہے وسیب ایکسپلورر ایک قلندرانہ دھمال کی اوٹ میں نظر بچا کے کہیں چادر ہی نہ چڑھا آئے ہوں۔
سہرہ گھڑیا، گھڑیا
تیرے ناں دا سائیاں
خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا۔ واپس اس ٹیکری اور مبینہ مزارات کی طرف آتے ہیں۔ لیکن صاحبو باب الاسلام پر حملہ آور محمد بن قاسم کی فوج کے بارے میں تو ہمیں کچھ اور ہی افسانوی معلومات فراہم کی گئی تھیں، جن میں اگور یا کنڈ ملیر کا ذکر تو کہیں نہیں آتا۔
صاحبو نقلِ مطالعہ الباکستان، افسانہ باشد، تاریخ ہرگز نہ باشد، ’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سراندیپ سے خلیج فارس کا سفر کرتا جہاز دیبل کی بندرگاہ کی قربت کے پانیوں میں بحری قزاقوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ تب کچھ یوں ہوا کہ مال ومتاع ہاتھ سے جاتا دیکھ بنویاربو قبیلےکی ایک عورت نے حجاج کے نام کی دہائی دی۔ عراق کا گورنر حجاج بن یوسف جو اس بیڑے کی راہ دیکھتا تھا اس نے بے درنگ لبیک کہتے ہوئے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کی سربراہی میں ایک لشکر روانہ کیا جس نے دیبل کے معرکے میں ہند سندھ کے راجہ داہر کا قلع قمع کرتےہوئے سندھ فتح کرلیا اوراسی نسبت سے سندھودیش باب الاسلام کہلاتا ہے۔‘
صاحبو ہم یہی کہانی سن کر جوان ہوئے۔ اور اس میں ہمارابھی کچھ دوش نہیں۔ یوسفی نے ٹھیک کہا تھا کہ اردو کی داستانوں میں جہاں کہیں سوداگروں کا ذکر آتا ہے وہ صرف اس لیے کہ بحری قزاق انہیں لوٹ سکیں۔ سیلون سے چلے مسلمان سوداگروں کے ساتھ دیبل کی بندرگاہ پر یہی کچھ ہوا۔ اور ہم تمام عمر یہی سمجھتے آئے کہ سندھ کے بحری قزاقوں کی گوشمالی کو آئے محمد بن قاسم کا بحری بیڑہ سیدھا دیبل پر آکر لنگر انداز ہوا اور یہیں سے ہمارے نوجوان سپہ سالار نے داہر کی فوج کو للکارا۔ مگر اب اچانک اس لشکر کے سپاہیوں کی قبریں اگور کے ہنگول نیشنل پارک کے پاس نکل آئی ہیں۔ تو کیا دیبل کے علاوہ اگور بھی کوئی بندرگاہ تھی؟ اور اگر تھی تو اسلامی لشکر راستہ بھٹک کر دیبل سے لگ بھگ دو سو میل دور اگور میں کیا کررہا تھا؟
تو کچھ ایسا ہے کہ دو باتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارا نوجوان سپہ سالار سمندر کے راستے نہیں آیا تھا اور دوسرے محمد بن قاسم کی قیادت میں بھیجا گیا لشکر مسلمانوں کا ہند سندھ پر پہلا حملہ نہیں تھا۔
تیرھویں صدی عیسوی کا ذکر ہے کہ اوچ شریف کا رہائشی علی بن محمد کوفی اکتسابِ علم کی نیت سے نکلا تو قسمت اسے سکھر اور روہڑی کے بیچ بکھر قلعے تک لے آئی۔ بکھر کا جزیرہ عین اس جگہ ہے جہاں دریائے سندھ کی دو شاخیں آپس میں ملتی ہیں اور آج کے سکھر اور روہڑی کو ملاتا لینسڈاؤن برج سینہ اپنے لوہا پلائے جُسّے کے ساتھ کھڑا ہے۔
یہاں اسے قاضی اسماعیل بن علی ثقیفی کی شاگردی میں جگہ مل گئی۔ قاضی صاحب کی نسبت بنو ثقیف کے حوالے سے محمد بن قاسم سے ملتی تھی۔ قبیلہ بنوثقیف کا ذکر کچھ آگے چل کر دوبارہ بھی آئے گا۔
تو صاحبو قاضی صاحب کے پاس عربی زبان میں ایک نادر قلمی نسخہ تھا جس میں سندھ پر عربوں کے حملے کے وقت کے احوال وآثار درج تھے۔ علی بن کوفی نے اس نسخے کا فارسی میں ترجمہ کیا اور بیسویں صدی کے شروع میں مرزا قلیچ بیگ نے یہ نسخہ انگریزی زبان میں ہمارے سامنے رکھ دیا۔ فتح نامہ سندھ کے عنوان سے پس منظر پر آئی یہ کتاب اپنے دوسرے نام چچ نامہ سے زیادہ مشہور ہے۔
چچ نامہ سندھ کے راجہ چچ کے نام سے معنون ہے۔ براہمن جاتی کا چچ جو ساتویں صدی کی تیسری دہائی کے آغاز میں سندھ کی راج گدی کے گڑھ الور (آج کے ارور) میں تاج پہن کر تخت پر بیٹھا تو رائے خاندان کی بادشاہت دم توڑ گئی۔ داہر راجہ چچ کا بیٹا تھا جس کا ٹاکرا محمد بن قاسم سے ہوا مگر اس عرصے میں سندھ پر مسلمانوں نے کم وبیش پانچ سے چھ مرتبہ لشکر کشی کی اور سب سے پہلا معرکۂ کفر واسلام تو راجہ چچ کے اپنے دورِ حکومت میں ہوا تھا اور سنہ تھا 637 عیسوی۔
حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں بحرین کے گورنر عثمان الثقیفی نے ہند کی بندرگاہوں کو بحری بیڑے روانہ کیے تھے۔ ان میں سے ایک لشکر گورنر کے بھائی المغیرہ کی قیادت میں دیبل کی بندرگاہ پر اترا تھا۔ اب یہاں چچ نامہ کے پائے کی ایک اور تصنیف نویں صدی عیسوی میں احمد بن يحيى بن جابر بن داؤد (جسے تاریخ البلاذری کے نام سے زیادہ جانتی ہے) کی لکھی فتوح البلدان تو کہتی ہے کہ جنگ میں کامیابی کا سہرا مسلمانوں کے سر رہا مگر چھچھ نامہ کوئی اور کہانی سناتاہے۔ دیبل کے قلعے کے باہر مغیرہ ابو عاص نےتلوار نکال کر نعرۂ تکبیر بلند کیا اور بے جگری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ سپہ سالار کی ہلاکت کے بعد مسلمانوں کا لشکر بھی شکست خوردہ ہوتے ہوئے پس قدم ہو گیا۔
فتوح البلدان مزید بتاتی ہے کہ ان حملوں کی خبر جب خلیفہ راشد کو پہنچی تو وہ بحرین کے گورنر پر بہت برہم ہوئے۔ حضرت عمر کے دور میں جب بری فوج قیصروکسریٰ کے میدان مار رہی تھی، سندھ بھیجے بحری بیڑے کو منہ کی کھانی پڑی۔ حضرت عمرنے کسی بھی قسم کی بحری مہم جوئی کی ممانعت کردی جو کئی سال تک یونہی رہی یہاں تک کہ حضرت علیؓ کے دورِ خلافت کے بعد امیر معاویہ نے اسلامی بحری بیڑے کی تنظیم نو پر کام کیا۔ بات کہیں اور ہی نکل گئی، واپس خلفائے راشدین کے دور کو پلٹتے ہیں۔
بحری مہم جوئی کی راہ مسدود ہوئی تو مسلمانوں نے گئے وقتوں کے فارس اور آج کے ایران کے راستے ہندوستان کی سرحد کی کنسوئی لینے کی کوشش کی۔ حضرت عثمان ؓ کے دور میں عراق کے گورنر نے الحکیم ابن جبلہ العبدی کے نام کا فرستادہ روانہ کیا جو یہ خبر لایا کہ فارس کی سرحدوں کے پار کیکن (آج کا بلوچستان) کی قربت میں پانی کی قلت ہے، کھجور کا پھل کمتر ہے اور راہزنوں کی بہتات ہے۔ نتیجتاً مسلمان اس علاقے میں مزید مہم جوئی سے باز رہے۔
650 عیسوی تک فارس کی سرحدوں کے پار مسلمانوں کی رسائی زبلستان اور سیجِستان تک ہوچکی تھی۔ یہ علاقہ آج کے قندھار اور ہلمند سے ہوتا ہوا مکران کے مغرب میں بلوچستان کی ساحلی پٹی تک پھیلا ہوا ہے۔ اب فتوح البلدان بتاتی ہے کہ چوتھے خلیفۂ راشد حضرت علی ؓ کے دور میں ایک لشکر اسی علاقے سے چڑھائی کرتا ہوا کیکن (آج کے قلات) تک آگیا تھا مگر سپہ سالار کی ہلاکت کے بعد شکست کھا کر واپس ہوا۔ یہ سنہ تھا 663 عیسوی مگر چچ نامہ یہ کہتا ہے گو کہ اس لڑائی میں مسلمانوں کو فتح ہوئی مگر اسی اثنا میں حضرت علیؓ کی شہادت کی خبر سن کر ایک عجلت میں انہیں پسپا ہونا پڑا۔
معاویہ کے دورمیں اسلامی بحری بیڑے پر صحیح معنوں میں کام ہوا لیکن مسلمان بحری جہازوں کو سندھ کی بندرگاہوں کا رُٖخ کرنے میں ابھی نصف صدی کا عرصہ تھا۔ تاریخِ طبری میں جسے ہم تاریخ الرسل والملک کے نام سے بھی جانتے ہیں 700 عیسوی میں ایک مورنی کی چال ڈھال اور سازوسامان سے لیس لشکر کا ذکر ملتا ہے جو معاویہ نے ہندوستان کی طرف بھیجا تھا، مگر یہ بھی زمینی راستے سے آیا تھا۔ سیجِستان کے معروف راستے سے ہوتی ہوئی مورنی کی چال والی یہ فوج اندرونی بغاوت کا شکار ہوئی اور رُخ پلٹ کر اموی حکومت کا تختہ قریب قریب الٹا چکی تھی کہ بمشکل بچت ہوئی، مگر یہ قصہ کسی اور دن پر اُٹھا رکھتے ہیں۔
جس طرح ہر کہانی میں موڑ آتا ہے ہماری کہانی میں بھی موڑ ہے۔ سری لنکا کے جزیرے سے خلیج فارس کی نیت کرتا بحری جہاز جس میں سوار مسلمان اور ان کے تجارتی مال کو سندھ سے گزرتے دیبل کی بندرگاہ کی قربت میں بحری قزاقوں نے لوٹ لیا تھا۔ یہاں فتوح البلدان ڈرامائی انداز میں مسلمان عورتوں کی حجاج کو پکارتی ندا کا ذکر کرتی ہے اور کاتب لکھتا ہے کہ حجاج نے وہ پُکار باقاعدہ سُنی اور لبیک کہا۔ ہماری مانیے تو ٹیکسٹ بُک بورڈ والوں نے مطالعۂ پاکستان میں البلاذری کی نقل میں مکھی پر مکھی ماری ہے۔ یہاں چچ نامہ عقل کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور ایک معقول توجیہہ یہ دیتا ہے کہ حجاج کو قزاقوں کی خبر اس حملے سے بچ نکلنے والوں نے عراق پہنچ کر دی۔ عراق کے گورنر نے راجہ داہر سے قزاقوں کی سرکوبی کا مطالبہ کیا۔ داہر کے اس جواب نے کہ بحری قزاقوں پر اس کا زور نہیں چلتا سندھ پر مسلمانوں کے اگلے حملے کی راہ ہموار کردی۔
حجاج کو خلیفہ الولید کو سندھ پر لشکر کشی پر آمادہ کرنے میں کافی پاپڑ بیلنے پڑے۔ اب یہاں چچ نامہ اور تحفتہ الکرام بتاتی ہیں کہ اسلام کی خدمت سے زیادہ جس چیز نے خلیفہ کو رضامند کیا وہ اس مہم پر آنے والے خرچے کا دگنا معاوضہ خزانے میں جمع کروانے کا حجاج کا وعدہ تھا۔
رہ گئی حجاج کے ہاتھوں اسلام کی خدمت تو کیا عرض کریں۔ بنو ثقیف نے حجاز کی گورنری کی لالچ میں کیا ظلم نہیں ڈھائے۔ حجاج نے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے نواسے حضرت عبداللہ بن زبیر کو شہید کرواکر ان کی نعش مکے کے دروازے پر ٹنگوادی تھی۔ اور پھر ان کی والدہ حضرت ابوبکرؓ کی بڑی بیٹی حضرت اسماءؓ کو ان کے منہ پر کہا کہ دیکھا میں نے تمہارے بیٹے کا کیا حال کیا! صحیح مسلم کے کتاب الحج کے باب میں حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں جو انہوں نے حجاج بن یوسف سے کہے تھے
ہم نےرسول اللہ ﷺ سے سُنا تھا کہ بنو ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ظالم پیدا ہوگا۔ کذاب تو ہم دیکھ چکے، ظالم تُو ہے
ہم موضوع سے ہٹے جاتے ہیں باقی حجاج بن یوسف پر آپ ہمارے نوجوان عالمِ دین محمد علی مرزا المعروف انجینیئر کا وڈیو کلپ تلاش کرکے دیکھ لیجیے۔
ہمارے گرو سلمان رشید تو حجاج کے بدلے کو سندھ میں اَلَفی قوم سے جوڑتے ہیں جنہوں نے خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور میں حجاج بن یوسف کے مکران میں تعینات فرستادے سعید کلابی کو قتل کردیا تھا جس کی خبر جب حجاج کو ملی تو وہ بدلے کی آگ میں جلتا سندھ پر حملے کا بہانہ تلاش کررہا تھا۔
واپس آٹھویں صدی عیسوی کے سندھ کو پلٹتے ہیں۔ خلیفہ الولید سے حجاج بن یوسف کو حملےکی اجازت ملنے پر بھی ابھی محمد بن قاسم کا نمبر نہیں آیا۔
یہ وہ وقت تھا جب مکران میں محمد ابن ہارون النمری مسلمان گورنر تھا۔ حجاج نے ایک بحری بیڑہ بُزیل ابن تہفاح کی قیادت میں روانہ کیا جو دیبل کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوا۔ مکران سے گورنر ابن ہارون کمک لے کر دیبل پہنچا اور بُزیل کے لشکر سے جا ملا۔ اس فوج نے دیبل کا محاصرہ کیے رکھا اور عمان سے مزید کمک روانہ کی گئی۔ اس عظیم الشان لشکر کے مقابلے پر راجہ داہر نے اپنے بیٹے جےسیا کو چار ہزار گھڑسواروں اور چار ہاتھیوں کے ساتھ میدان میں اتارا۔ چچ نامہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ چار ہاتھی مسلمانوں پر بہت بھاری پڑے کہ ان کے لشکری گھوڑے بدک گئے۔ شہر کی دیواروں کے باہر سپہ سالار بُزیل ابن تہفاح کی ہلاکت نے مسلمانوں کی شکست پر مہر لگادی۔
اب 711 صدی عیسوی ہے اور حجاج کے بھتیجے محمدبن قاسم کی سندھ پر لشکر کشی کی تیاری مکمل ہے۔ مزے کی بات یہ کہ محمد بن قاسم کی قیادت میں یہ فوج سمندر کے راستے نہیں آئے گی۔ علی ابن کوفی کا چچ نامہ ہمیں راستے کے پڑاؤ کی مکمل تفصیل بتاتا ہے۔
6 ہزار شامی گھڑسوار 9 ہزار اونٹوں کے کاروان کے ساتھ یہ لشکر سترہ سالہ محمد بن قاسم ثقفی کی قیادت میں ایران کے شہر شیراز پہنچ کر انتظارکرتا ہے۔ اسی اثناء میں دروازے اور دیواریں گرانے کو لکڑی کے بھالے اور مینجنیقیں بحری راستے سے روانہ کی جاتی ہیں۔ بن قاسم شیراز سے زمینی راستے سے سیدھا تربت اور پھر مکران پہنچتا ہے۔ اس کی فوج اگور کے نزدیک سے بھی نہیں گزرتی۔ مکران سے گورنر ابن ہارون پانچ منجنیقیں اور پانچ سو سپاہیوں کا دستہ ساتھ کرتا ہے اور خود بھی ناسازیٔ طبع کے باوجود لشکر کے ساتھ چلتا ہے۔ دیبل کے راستے میں ہی مکران کے گورنر کا انتقال ہوجاتاہے۔
کراچی سے حب کے راستے باہر نکلیں اور کوسٹل ہائی وے کو چھوڑ کر شمال کی سڑک پکڑ لیں تو اوتھل کے راستے بیلہ آجاتا ہے، گئے وقتوں کا ارمن بیلہ۔ یہاں ایک مزار میں ہمارا مکران کا گورنر ابن ہارون دفن ہے جو محمد بن قاسم کی فوج کے ساتھ مکران سے دیبل جانے کو نکلا تھا۔
محمد بن قاسم کی فوج بیلہ سے دیبل پہنچ کر پڑاؤ ڈالے گی اور یہ دن ہوگا دس محرم اور سن (گمان غالب ہے) 711 عیسوی۔ سندھ پر مسلمانوں کے پہلے حملے، متعدد شکستوں اور 75 برس بعد یہ فوج سندھ کو فتح کرلے گی، مگر وہ کہانی کسی اور دن کہیں گے۔
فی الوقت اتنا تو کہیں گے کہ اگورکے سمندر اور فضا کو محمد بن قاسم کی ہوا بھی نہیں لگی۔ ہنگول پارک کی قربت میں ایک اونچے ٹیلے پر جو قبریں ہیں وہاں محمد بن قاسم کے لشکر کے سپاہی دفن نہیں ہیں۔ ان قبروں کے ڈیزائن اور نقش ونگار کا سیاق وسباق بہت بعد کے سالوں کاہے۔ کنڈ ملیر میں کوسٹل ہائی وے کی بغل میں محکمۂ آثارِ قدیمہ یا کسی اور کی تعمیرکردہ سبز رنگ کی دیوار ایک فراڈ ہے۔