اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوانہ

ہمارے انٹر کالجیٹ زمانے میں گرومندر سے بورڈ آفس جانے کی دو سہل صورتیں کراچی سٹی گورنمنٹ کی 2D یا پھر 4G بس تھی۔ صورتیں تو اور بھی بہت سی تھیں مگر F-16 اور کراچی کی المشہور W-11 اومنی بسوں میں چلتی گاڑی سے چڑھتے اترتے پران دے دینے یا پھر عروس البلاد کی اومنی فارمولا ون میں برلبِ سڑک ایک برق رفتار خودکشی سے بہت بہتر سٹی گورنمنٹ کی کھٹارا بسیں تھیں۔ اسی لیے 2D اور 4G کو ہم نے اوپر سہل صورتیں لکھا ہے۔ ثانی الذکر تین ہٹی سے ہوتی لیاقت آباد عرف لالو کھیت کے درشن کرواتی نارتھ ناظم آباد کی نیت کرتی جبکہ اول الذکر براستہ لسبیلہ ۔ پیٹرول پمپ، ناظم آباد نمبر سات کا مختصر راستہ پکڑتی بورڈ آفس پہنچا دیتی۔ ہر دو سواریاں منزلِ مقصود پر اتاردینے سے تھوڑا قبل ادیب رضوی روڈ سے گزرتی تھیں اوراسوقت اگر آپ کھڑکی کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے ہوتے تو پاپوش نگر کا قبرستان نظر پڑتا۔ یہاں ایک ہنستے مسکراتے نوجوان کی تصویر سے مزین ایک اطلاعی بورڈ دیکھنے والوں کو بتلاتا تھا کہ ابن انشاء کےجواں سال بھتیجے محمود بابر کا مدفن اسی قبرستان میں تھا۔ یہاں ہمیں حمیرا بدر منہاس بتاتی ہیں کہ محمودبابر بانی و مدیر اعلیٰ خواتین ڈائجسٹ محمود ریاض کے بیٹے تھے۔
تب ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہمارے انشاجی بھی اسی پاپوش نگر کے قبرستان میں سپردِ خاک ہیں۔ ہم نے ابھی تک یہ تفصیل نہیں پڑھی تھی کہ گیارہ جنوری 1978 کی شام جب انشا جی نے رختِ سفر باندھا تو ’ٹورقئے اور ایکزیٹرکے جنگل برف کی سفید چھت میں دفن تھے اور لندن کےایٹکنسن مورلےاسپتال کی گھڑیوں میں چھ بج کردس منٹ ہوئےتھے‘۔ ہم صرف اتنا جانتے تھے کہ انشا جی نے اس بستی سے دل اُچاٹ ہونے پر جب کوچ کیا تو وہ انگلستان میں تھے اور ہماری عفت شہاب کی طرح کینٹربری کے قبرستان میں نہ سہی، گوروں کے اسی دیس میں کہیں اور انکا مدفن ہوگا۔
ہمارے محبوب مصنف مرشدی و آقائی مشتاق احمد یوسفیؔ نے کہا تھا
بچھو کا کاٹا روتا ہے، سانپ کا کاٹا سوتا ہے، انشا جی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے
غالباً جماعت نہم کا قصہ ہے کہ اپنے ہردلعزیز مصنف کے کہے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم نے برضا و رغبت خود کو انشاجی کی اردو کی آخری کتاب کے نشیلے سانپ سے ڈسوایا اور اس قبیلے میں شامل ہوگئے جسے سوتے میں بھی مسکرانے کی عادت ہے۔ انشاؔجی کی لکھت کا پھنیر بھی کمال ہے، ’جو کاٹ لے تو ڈمپل سیدھا آنکھ میں پڑتا ہے‘۔ یہ اسی اردو کی آخری کتاب کا ذکر ہے جس کے بارے میں خود مصنف کو خدشہ تھا کہ ’کہیں یہ کتاب ان طالبعلموں کے خون ناحق کا باعث نہ بن جائے ’جن سے آج بھی ملکہ نورجہاں کےحالات پوچھے جائیں توملکہ ترنم نورجہاں کےحالات بتاتےہیں‘۔ اسی نادرِ روزگار کتاب کے دیباچے میں انشا جی محکمائے تعلیم سے ممنونیت کا اظہار کرتے ہیں
’جنہوں نے سکولوں کو سرکلر بھیج کر ہدایت کی ہے کہ اس کتاب کو نہ خریدا جائے چنانچہ ہمیں ہرروز سکول لائبریریوں کی طرف سے بے شمار آرڈر موصول ہورہے ہیں کہ یہ کتاب ہمیں نہ بھیجی جائے۔ اتنے کہ ہمارے لیے انکی تعمیل کرنا دشوار ہورہا ہے‘۔
اردو کی آخری کتاب کا ڈسا پانی مانگنے نکلا تو ایک سودائی انشاؔ کی بابت پھیلائی جھوٹی باتوں کے جال میں جا اٹکا۔ کیڈٹ کالج کی چھٹیاں تھیں اورگھرکولوٹتی ایک فارغ البالی کی کسلمندی جب پی ٹی وی کی صبح کی نشریات میں غلام علی کی کچھ بندشوں کوٹٹولتی آواز کان میں پڑی
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشاؔ جی کا نام نہ لوکیا انشاؔ جی سودائی ہیں
’ایک کنکناتے کراچوی جاڑے‘ کی حسیِن صبح جھوٹی باتوں کی تکرار کچھ دل میں کھب سی گئی۔ صاحبو، شب بیتنے اور چاند کے ڈوب جانے پر گھرکے دروازے پر پڑجانے والی زنجیر اور سجنی سے کیے بہانوں کے تخمینے سے بھی پہلے ہم انشاؔ جی کی جھوٹی باتوں کے بہلاوے میں آکر ایک جوگ بجوگ کی شاعری کے اسیر ہوئے۔ اور آج تک ہیں۔
ایک مدت گزرنے کے بعد کی شام جب ایکسل لیب کے بلیو ایریا آفس میں دن کی شفٹ ختم کرکے گھر کو لوٹتے مینیجر آؤٹ ریچ سے آنے والے نائٹ شفٹ کے اسسٹننٹ مینیجر آفتاب نے ملاقات نہ ہونے کا گلہ کیا تو ایک بے ساختگی میں دماغ نے انشاجی کے شبد ہی دوہرائے
ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں تم چڑھتی رات کے چندرماں
ہم جاتے ہیں تم آتے ہو پھر میل کی صورت کیوں کر ہو
جن دنوں ابن انشأ ابن انشأ نہیں بنا تھا تو مفتی نے پہلے پہل اسے احمد بشیرکے یہاں دیکھا تھا
ایک ٹیٹھ پینڈو، چہرہ یوں ڈھیلاجیسےچارپائی کی ادواین اتری ہو مسکراہٹ میں بے بسی
میں احمد بشیرسےپوچھتا یاریہ کیاشے ہے
یہ ابن انشأ ہے، وہ جواب دیتا
ابن انشأ ___ نہیں یاراس کانام توخیردین ہوناچاہیے
ممتاز مفتی جیسے گتھیاں سلجھانے والے نے ابن انشا کو ’جلتا بجھتا‘ لکھا ہے۔ ازلی طور پر بجھا ہوا جس پر مفتی جی حیران تھے کہ اتنی گہری بجھن سے یہ جلتا کیسے ہے اور جب جلتا ہے تو ایک خلوص میں چپ چپ کرتی مسکراہٹ چہرے پر بکھر جاتی ہے۔ انہوں نے ٹھیک پہچانا کہ ’خیردین‘ کی یادوں کے طاقچے میں کوئی پھنیر سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔
صاحبو ایسے پھنیر سانپ ہم سب کے طاقچوں میں کنڈلی مارے بیٹھے ہیں۔ ایک پائے کے مزاح نگار کی یہی نشانی ہے کہ وہ اس کنڈلی مارے پھنیر کو اس طرح کِیلتا ہے کہ یادوں کے طاقچے میں دکھوں کے فاسفورس میں پروئی تیلی کی رگڑ سے ظرافت کی پھلجھڑیاں جگمگانے لگتی ہیں۔ ایک بھولے بھالے خیردین سے ابنِ انشاؔ کا اتنا ہی سفر ہے۔ زمانے کو چاند نگر کا تحفہ دینے والے کو یاس کی تاریکیوں میں ڈوب کے آنا پڑتا ہے اور اگر ایسے میں احمد بشیر جیسے دوستوں کا ساتھ نہ ہو تو ڈور ٹوٹ بھی سکتی ہے۔
وہی احمد بشیر جن کی سنگت میں ابن انشاؔ کا ’چاند‘ سے عشق پروان چڑھا اور بات دلفریبیوں اور اٹھکیلیوں سے بڑھتی بڑھتی خودکشی کی طرف جا نکلی
وہ جو تیرا داغ غلامی ماتھے پر لیے پھرتا ہے
اس کا نام توانشاؔ ٹھہرا ناحق کو بدنام ہے چاند
ہم اس لمبے چوڑے گھر میں شب کو تنہا ہوتے ہیں
دیکھ کسی دن آ مل ہم سے ہم کو تجھ سے کام ہے چاند
جمال نے سادگی سے پوچھا زہر کہاں ہے
یہ رہا میرے ہاتھ میں
اور مرنا کہاں ہے
گھرہی میں ٹھیک رہے گا
وہ گرومندر کے قریب پہنچ چکے تھے اور انہیں مارٹن کوارٹرز کی طرف جانا تھا جہاں بیدل رہتا تھا
زندگی مجھے پسند تھی، بیدل نے کہا، افسوس کہ اتنی مختصر نکلی
جمال اداس ہوگیا، اس نے کہا، کاش وہ حرامزادی ہمیں کبھی ملی نہ ہوتی
ایسا مت کہو، بیدل نے تڑپ کر کہا
مگر اس نے تمہارے ساتھ سخت بے وفائی کی
ہمارے مفتی جی ہی کہتے ہیں کہ اگر احمد بشیر ابن انشا کا دوست نہ ہوتا تو ابن انشا مدت سے مرچکا ہوتا۔ کراچی کے کسی مضاف میں اس کا ٹوٹا پھوٹا مزار ہوتا جس پر کتبہ لگا ہوتا ’بیراگ کا جوگی شاعر جس میں زندگی کی تلخیوں کو برداشت کرنے کی جرات نہ پیدا ہوسکی اور اپنے ہاتھوں سے زندگی کا پیالہ الٹ دیا۔‘
اب یہاں جمیل الدین عالیؔ اختلافی نوٹ لگائیں گے کہ انشا نے خودکشی کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ لیکن وہ تو خودکشی کی محرک ’وجہ‘ کے بارے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اس خاتون سے واقف ہیں جو ’اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اسے بیوقوف بناتی تھی‘۔ بات سے بات نکلتی ہے تو عالیؔ جی بھی بہکتے چلے جاتے ہیں کہ انشا کے مشہور و آسودہ حال ہونے کے بعد جب وہ خاتون ملنے آنے لگی تھی تو انہوں نے بھی کسی دن آ ملِ ہم سے، ہم کو تم سے کام ہے چاند والی ’چاند‘ کو دیکھا تھا۔ ’میں نے انہیں کوئی خاص خاتون نہ پایا۔ بس، کیا جانیے اس نے انہیں کس آن میں دیکھا۔‘
بات بے بات ہوئی جاتی ہے، یہ قصہ پھر کبھی۔
یہاں سے ہم واپس گیارہ جنوری 1978 کے لندن کو پلٹتے ہیں جب ٹورقئے اور ایکزیٹرکے جنگل برف کی سفید چھت میں دفن تھے۔ انشا جی کے اپنے کوچ سے لگ بھگ بیس برس قبل اپنے جواں سال دوست اخترحسن کے اچانک انتقال پر ان کے شگفتہ قلم سے کچھ درد کی بوندیں ٹپکی تھیں۔ کراچی میں دسمبر کی ایک سرد بھیگی صبح تھی جب اختر کو زمین کے حوالے کیا گیا اور انشا جی نے کہا
پھر دیکھ زمیں پر پانی ہے، پھر دیکھ فلک پر پانی ہے
یہ بارش، کیچڑ، سرد ہوا اور راہ کٹھن انجانی ہے
اے دور نگر کے بنجارے کیوں آج سفر کی ٹھانی ہے
کہنے والے کہتے ہیں کہ جوگ بجوگ کے شاعر انشا کا یہ واحد مرثیہ تھا جو انہوں نے کہا۔ اب یہاں اپنے مقالے میں ریاض احمد ریاض لکھتے ہیں کسے معلوم تھا کہ اس بنجارے کو بھی ایسے ہی زمستانی موسموں میں کٹھن انجانے راستوں پر روانہ ہونا ہے کہ بقول اختر حسین جعفری
تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں
توُ جدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں !
14 جنوری 1978 کو جنگ اخبار کراچی نے خبر لگائی کہ لندن سے کراچی آنے والی فلائٹ پی کے 782 میں مسافروں کے ساتھ ابن انشا کا جسد خاکی بھی وطن کو لوٹ رہا تھا۔ طیارے کے پی اے سسٹم پر استاد امانت علی خان کی آواز میں ابن انشا کی ’ انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘ کئ بار سنوائی گئی۔ لکھنے والے نے لکھا کہ جہاز میں انشا جی کے سفر آخرت کے ہمسفر ہچکیوں کے ساتھ روتے آئے ۔
دلِ وحشی کے رختِ سفر باندھنے اور انشا جی کے واقعتاً اُٹھ کر کوچ کر جانے کے بعد شب بھی بیت گئی اور چاند بھی ڈوب چلا۔ وہ کیا گئے اپنی کھٹ مٹھی نثر، برجستہ سفرناموں اور دھیمی آنچ کی کسک والی نظموں کا بھرا پُرا شہر ویران کرگئے۔ جانے کیا طلسم دھرا ہے اُس پار کہ جانے والے لوٹ کر نہیں آتے۔ ان کے جانے کے بعد قتیل شفائی نے جواب آں غزل کچھ لازوال شعرلکھے اور سلمان علوی نے ان کا خوب حق ادا کیا
یہ کس نے کہا تم کوچ کرو باتیں نہ بناؤ انشاؔ جی
یہ شہر تمہارا اپنا ہے اسے چھوڑ نہ جاؤ انشاؔ جی
اک رات تو کیا وہ حشر تلک رکھے گی کھلا دروازے کو
کب لوٹ کے تم گھر آؤ گے سجنی کو بتاؤ انشاؔ جی
13 جنوری کی شام انشاجی کو پاپوش نگرمیں سپرد خاک کردیا گیا۔ ڈاکٹر ریاض احمد ریاض نے اپنے مقالے ابن انشا احوال و آثار میں لکھا ہے، ’سوگوار لوگ ابھی مرحوم کی قبر پر پھول رکھ رہے تھے کہ تیسری کا چاند قبرستان کے مغربی گوشے سے نمودار ہوا اور اپنی مدہم اداس کرنیں شہر خموشاں پر بکھیردیں
چاند بھی صورت کتاں صد چاک
چاندنی بھی فسردہ وغمناک
جی میں آتی ہے لوٹیے سر خاک
کہنے والے کہتے ہیں اپنی والدہ کے پہلومیں لیٹے ابن انشا کی اپنی قبرکتبے سے بے نیاز ہے۔ ہم اس کی تصدیق نہیں کرسکتے کہ پاپوش نگر کے قبرستان میں ابن انشا اور امجد صابری کے مدفن پردعا کرنا ہم پہ ابھی تک ادھارہے۔

پس تحریر
صاحبو بات اپنے چلبلے ہر دلعزیز انشاجی کی ہے تو بات سے بات نکلی جاتی ہے۔ ہمارے محبوب لیکھک کی ہمارے محبوب شہر سکردو سے جڑی بھی ایک یاد ہے۔ اس کا ذکر کرلیں تو قلم کو تھامے لیتے ہیں۔
جنوری کا مہینہ تھا جب سکردو کے اجاڑ ہمسائے گمبہ کے ٹرانزٹ میس کا چولہا ساتھ کے گیسٹ روم میں ٹھہرے ایک اکیلے بیراگی افسر کے لیے جلتا تھا۔ سامنے کی وادی میں کچھ منجمد کچھ رواں سندھودریا کے اطراف ایک ریگزار کی وحشت تھی، چارسو ایک گھُپ اندھیرا تھا اور پردیس کاٹنے کے جملہ لوازمات سرد رات، آوارگی اور نیند کا بوجھ پورے تھے جب ایک کمرشل بینک کی سکردو برانچ کے جنرل مینیجر خالد ندیم نے اجلاس فرمایا۔ وہ بطور خاص ٹرانڑٹ میس کے ایک اکیلے افسر کے لیے جلتے چولہے کی K-2 Oil (فوج کی راشن گرنتھ میں مٹی کے تیل کا سرکاری نام ہے) کی نشیلی آنچ پر پکے مٹر پلاؤ اور چکن کڑاہی کے لوازمات نوشِ جان کرنے کے لیے بلوائے گئے تھے۔
اس برفاب کمرے کے ایک 3 بائی 3 گز کے محدود ٹکڑے میں جو مٹی کے تیل کے ہیڑ کی گرمائش سے کچھ کچھ دہکتا تھا ایک فوجی من بھاتے کھاجے، لاہوری جگتوں اور اماوس کی اندھیری رات میں گونجتے جگجیت سنگھ کے سُر آج بھی یاد ہیں، کہ صاحبو اس دن گیارہ جنوری ابنِ انشا کی برسی تھی
بے درد سننی ہو تو چل کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق ترا رسوا ترا شاعر ترا انشاؔ ترا
کل چودھویں کی رات تھی ۔ ۔ ۔