چنار روڈ، فردوس مارکیٹ اور چاکلیٹ کریم سولجر

اگرآپ ایبٹ آباد کے جناح آباد میں ہیں اور COMSATS یونیورسٹی کے چنار روڈ پر چہل قدمی کر رہے ہیں جبکہ خزاں اور یونیورسٹی دونوں کے رنگ اپنے جوبن پر ہوں تو آج کی اس سڑک پر جہاں تتلیاں اترتی ہیں اور آتے جاتے پھولوں کو چھیڑ کر گزرتی ہیں، گئے دنوں کی تھرڈ پاکستان بٹالین کے اس روڈ کو قیاس کرنا ناممکنات میں سے ہوگا جو گئے برسوں میں HSs یعنی ہالز آف سٹڈیز کی بھوت بنگلہ نما بارکوں کے قلب سے گزرتی تھی۔ یہیں ایک بارک میں ہمارے اکیڈیمک پلاٹون کمانڈر کیپٹن اختر خلیلی ہمیں انگریزی پڑھانے پر مامور تھے۔

مگر تب یہاں جراسک پارک ہوا کرتی تھی۔

Chinar Road – COMSATS Tobe Camp Abbottabad

ہمارے پڑھنے والوں میں سے جنہوں نے اگوکی کی دوسری داستان پڑھ رکھی ہے انہیں جراسک پارک کا خوب تعارف ہوگا۔ فی الوقت اتنا اشارہ کافی ہے کہ ہیڑ اور گیزر کی عیاشیوں سے پرے کمرے کے ماحول اور غسل خانے کے پانی ہر دو کو گرم کرنے کے لیے جو جناتی آلہ مستعمل تھا اسے یارانِ خوش خصال کوئٹہ سٹوو کہا کرتے تھے۔ ان بددعائے چولہوں میں کوئلوں اور گارے کے ملغوبے سے بنے ٹینس کی گیند سے بڑے اور فٹ بال سے چھوٹے پتھر نما آتش گیر گولے جھونکے جاتے تھے۔ جنگِ عظیم اول سے قبل کی پیدائش والے ان چولہوں کی دھونکنیوں سے کبھی آگ کی لپٹیں نکلتی ہوں گی اب یہ کھانستے بزرگ صرف دھواں خارج کرتے تھے۔ کوئٹہ سٹوو کے ان گولوں کو اُپلوں کی مانند بیلتے بناتے تھرڈ پاک کے بیئرز کے ہاتھ اور ان کے دھوئیں میں سانس لینے والے کیڈٹس کے پھیپھڑے سارا سیال کالے رہتے


کالا شاہ کالا، میرا کالا اے دلدار . . .


تو صاحبو کہاں آج کے COMSATS کی رنگین تتلیوں بھری روشیں اور کہاں ٹوبےکیمپ کے کالے کلوٹے کیڈٹس۔

3rd Pakistan Battalion a.k.a Jurassic Park – Tobe Camp Abbottabad

وہی ٹوبے کیمپ ہے مگر موسم فرق ہے۔ تھرڈ پاکستان بٹالین کے درختوں کی مردہ شاخوں پرسبز ڈنٹھل پھوٹ رہے تھے اور سارے میں سرمئی جاڑے کو وداع کرتے گلابی بہارکے پیاموں کی بھینی مہک تھی۔ تھرڈ پاک میں بہار آنے کو تھی اور اپنے دلوں کے نہاں خانوں میں عدم سے لوٹ آنے والے کسی نازنین کے ہونٹوں پر مرمٹے خواب اورکسی دلربا کی یادوں سے مشکبو گلابوں کی امید سجائے کیڈٹس بہت پرامید نہیں تھے کہ جاڑا ہو یا گرمی اکیڈیمی میں اپنے فیض والا موسم ہی رہتا تھا


ابل پڑے ہیں عذاب سارے
غبارِ خاطر کے باب سارے
نئے سرے سے حساب سارے


ہمیں پکا یقین ہے کہ ٹینا ثانی کو بخشی بہار کی آمد سے ہراساں کرتی یہ نظم فیضؔ نے تھرڈ پاکستان بٹالین کے جی سی آفس کی رول کال میں ’پنشمنٹ پریڈ!‘ کی جناتی صداؤں کے سائے میں بیٹھ کر لکھی ہوگی۔


دیکھیں ہم پھر بھٹکے جاتے ہیں۔ تو صاحب ٹوبے کیمپ کی بہارکی آمد والی رُت ہے اور آج کے چنار روڈ کی جگہ گزرے کل کے ہالز آف سٹڈیز کی ٹوٹی پھوٹی سڑک ہےجہاں ایک بارک میں ، کوئٹہ سٹوو کی آلودہ گرمائش کی جگہ ایک نم ٹھنڈک سے دھندلاتی کھڑکیوں سے چھن چھن کرآتی سورج کی روپہلی کرنوں نے لے لی تھی۔ اندر بیٹھے عبیدہ چھیانوے کے کیڈٹ کیپٹن خلیلی کے بے نیازانہ طنطنے کے زیر دام انگریزی سے نبرد آزما تھے۔کیپٹن اختر خلیلی انگریزی کےاستاد ہونے کے ناطے ہمارے اکیڈیمک پلاٹون کمانڈر بھی تھے اور یہ عہدہ جتانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ ایجوکیشن کور کے تھے مگر لگتے نہیں تھے۔ آرٹلری کے لگتے تھے۔ فوج میں رائج انگریزی محاورے کے مطابق پکے K L M (معاف کیجیے گا اس کا مطلب ہم نہیں بتائیں گے۔ ہم خود توپخانے سے ہیں۔ آپ اپنے کسی واقف کار آرٹلری افسر سے پوچھ لیجیے اور اگر کوئی واقف کار توپخانے میں نہیں ہے تو اور بھی اچھا ہے)۔

انگریزی کا سبق تھا اور جارج برنارڈشا کا کلاسیک کھیل ’آرمزاینڈ دا مین‘ چل رہا تھا۔ چل رہا تھا ہم نے اس لیے لکھا کہ کیپٹن خلیلی کے زیرانتظام باقاعدہ نامزد کیڈٹ اپنے اپنے ڈائیلاگ ادا کرتے تھے۔ صاحبو بھلے دن تھے، کیپٹن بلنتشلی اور رائنا کے معاشقے کی اوٹ میں ہم ہنسی خوشی جارج برنارڈشا کا ہمارے کیپٹن کی زبانی کہلوایا گیا ڈائیلاگ


’نائن سولجرز آؤٹ آف ٹین آر بورن فولز‘


Nine soldiers out of ten are born fools.


نہ صرف پڑھ دیتے تھے بلکہ اس پر کھلکھلا کر ہنس بھی پڑتے تھے۔ آپ آج کل یہ کہہ کر دیکھیے۔ اگر آپ فوجی ہیں تو آپ کا کورٹ مارشل ہوجائے گا اور دوسری صورت میں وہ کیا ظفری خان کی ٹریڈ مارک پنجابی سٹیج کی جگت ہے ’بیٹھو بیٹھو لیا ڈالا‘۔

1885 کی سربیا اور بلغاریہ کی جنگ کے پس منظر میں لکھے ہلکے پھلکے ’آرمز اینڈ دا مین‘ کی اور بہت سی باتیں بھلی تھیں مگر جو ایک ہمیں یاد رہ گئی وہ ہمارے کیپٹن بلنتشلی کو دیا گیا رائنہ کا محبت بھرا لقب چاکلیٹ کریم سولجر تھا۔ وہ اس لیے کہ ہمارا سپاہی جوبن پر آئے محاذ کی عین گرمی میں بھی اپنے ایمونیشن پاؤچ میں کارتوسوں کی جگہ چاکلیٹیں لیے پھرتا تھا۔ صاحب وہ دور ہی ایسا تھا جنگ کے چاکلیٹ کریم سولجر اور فلمی پردے کے چاکلیٹی ہیرو دل پر راج کیا کرتے تھے۔ اورسچ بتائیں تو ہمیں تو کیپٹن بلنتشلی میں اللہ بخشے اپنے وحید مراد دکھتے تھے۔

وحید مراد سے جڑی ہماری دوسری یاد ہمالیہ کے معبدوں میں لمبے ہوتے سایوں میں اترتی ایک اداس شام کی ہے جب ہم اپنی تنہائی سمیٹتے بچھاتے اپنے اگلو کو پلٹے اور ٹرانزسٹر آن کیا تو ریڈیو پاکستان سے مواصلاتی لہروں پر نشر ہونے والے ایک محبوب نغمے نے دل کے تاروں پر کوئی جادو سا کیا اور ہم بے اختیار تال سے تال ملا جھومنے اور گانے لگے


اُس کے چہرے پہ جمی جب میری گستاخ نظر
جھینپ سا جائے گا مجھ سے وہ ذرا شرما کر
اِس ادا پر تو مجھے اور بھی پیار آئے گا
جھوم اے دل وہ میرا جانِ بہار ۔۔۔


یوں لگا جیسے اس ایک پل میں ساری کائنات محوِ رقص ہے۔ دل کو ٹٹولا تو اداسی کا کہیں نام ونشان تک نہ تھا۔ ہمارے دل سے بے اختیار وحید مراد کے لیے دعا نکلی۔


بہت بعد کے سالوں کا ذکر ہے ۔۔۔

غمِ روزگار کے حیلے میں ہم لاہور کے گلی کوچوں کو اپنا مسکن کیے بیٹھے تھے۔ ایک جوبن پر آئی شام ’یہ کاغذی پھول جیسے چہرے مذاق اڑاتے ہیں آدمی کا‘ سنتے دل بہت بے چین ہوا تو ہم گلبرگ مین بلیوارڈ کی قربت میں علی زیب روڈ پر فردوس مارکیٹ کے قبرستان چلے آئے۔ یہاں ایک کونے میں اپنے والد کی قبر کے ساتھ ہمارا چاکلیٹ کریم ہیرو ابدی نیند سورہا ہے۔ اس شام علی زیب روڈ پر فاتحہ پڑھتے ہم نے وحید مراد اور کیپٹن بلنتشلی کو بہت یاد کیا۔

وحید مراد کی برسی پر ہم کچھ لکھنے بیٹھے تو یادیں ہمارا دامن پکڑ کر ماضی کی ایک بھولی بسری راہگزر کی سیر کرا لائیں۔ ہم نے ان کے طفیل اپنی جوانی کے دنوں کو یاد کیا۔ اللہ ہمارے چاکلیٹ کریم ہیرو پر اپنا فضل وکرم فرمائے۔
آمین

Waheed Murad is buried in Firdous Market Graveyard on Ali Zeb Road in Lahore.
share this article
author bio

Imran Saeed

I am a teller of old tales. History, folklore, military, and more. Mostly covering Pakistan, my homeland, but also the Great White North, where I am currently settled.
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments