1

ریاست ہائے متحدہ اگوکی
ایک نو خیز لفٹینی کے دنوں کی بڑی پائیدار یاد ہے۔ آٹھ ڈویژن کے بیٹل سکول میں آفیسر ویپن کورس تھا، سنگین لڑائی (bayonet fighting) کی سنگین تر ہوتی مشقیں تھیں اور ہم تھے
ح ےےدررر! پری ۔ بٹ ۔ کٹ ۔ پائنٹ ودڈرا !!
دیکھیے ہمارے فوجی بھائی بہنیں زیرِ لب مسکرانا شروع ہوگئے۔ اب یہاں ہمارے غیر فوجی بھائی بہنوں کے لیے ہم بتاتے چلیں کہ ميدانِ جنگ میں حملے کے آخری مرحلے ميں مورچوں ميں اگر دو بدو لڑائی کی نوبت آ جائے تو سنگين لڑائی اس کی مشق ہے۔ ايک تھکے ٹوٹے کچھ کچھ کٹے پھٹے جُسّے ميں جان پھونکتی حضرت علی حيدرِ کرار سے منسوب حيدررر کی للکار ہے اور اس کے بعد دشمن کے وار کو جھیلتے اس کے سينے میں سنگين ترازو کرتے کچھ لڑائی کے پينترے ہيں۔ ہمارے پڑهنے والے اگر اس کی تمثيلی جھلک دیکھنا چاہيں تو YouTube پر سنگین لڑائی (bayonet fighting) کو تلاش کرليں۔
دن بھرکی تھکن کے غبار میں ہم کمرے میں واپس ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہم سے پہلے ہمارا کورس میٹ دیما ***دا ایک سکوت کے عالم میں بستر پردراز ہے۔ ہمارے استفسار پرکہ ’دیمے! کیا کر رہا ہے؟‘ اطمینانِ قلب کی آخری سیڑھی سے اس کی آواز آئی
’یار میں کچھ بھی نہیں کررہا، سانس بھی نہیں لے رہا۔ اپنے آپ آ رہی ہے اپنے آپ جا رہی ہے‘
صاحبو، فوج کی نا پائیدار زندگی کی حشر سامانیوں میں سے ’کچھ بھی نہ کرنے والی‘ چند ساعتیں رب کائنات کی گرانقدر نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں
چند کلیاں نشاط کی چُن کر مدتوں محو ’سپاس‘ رہتا ہوں
توایسے ہی ’کچھ نہ کرنے‘ والے دنوں کا ذکر ہے۔ پلٹن سیاچن کے برفاب سے سیالکوٹ اورسمبڑیال ڈرائی پورٹ کی حدِ فاصل ریاست ہائے متحدہ اگوکی کے خط استوا میں اتر آئی تھی۔ وہ گرمی تھی کہ چیل انڈا اور ہم کمبل کو چھوڑتے تھے۔ افسرانِ خوش خصال ساتھ کے گاؤں سے سپلائی ہوئے مکھن کے پیڑے کو افسر میس کے لچھے دار پراٹھے پر پگھلا چائے میں ڈبو چیراٹھے کا لطف لیتے اور رب کا شکر ادا کرتے تھے۔
اور تو اور یونٹ ٹی بار میں ستو اور شکر بھی دستیاب تھی اور کبھی کبھی تپتی دوپہروں میں شیخ رشید کا مقولہ عباسیہ کے افسروں پر حرف بہ حرف صادق آتا کہ ’فوج ستو پی کے سو رہی ہے‘۔ راتیں یونٹ کے سیکنڈ ان کمانڈ کی ذاتی سرپرستی اور میجر چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی آغوش میں ٹو ہارٹس اور تھری نو ٹرم کی گردانیں بھگتانے میں گزرتی تھیں۔ تڑکے فجر کی اذانوں کے ساتھ جب شو ٹوٹتا تو نماز کے بعد علی الصبح میجر علی رضا نقوی کے کمرے سے نصرت فتح علی کی تان بلند ہوتی:
ندیوں پار رانجھن دا ٹھانڑاں
کیتے قول ضروری جانڑاں
منتاں کراں ملاح دے نال
من اٹکیا بے پرواہ دے نال
میجر نقوی پی ایم اے پلاٹون کمانڈر رہ کر حال ہی میں واپس آئے تھے اور ایک طرح سے یونٹ سلیبرٹی تھے۔ آپ کی پسند ناپسند بی او کیو کے بیچلرز کے لیے فیشن سٹیٹمنٹ ہوا کرتی تھی۔ اس سارے ہنگام میں یونٹ کے سب سے جونیئر افسر (اس سے مراد ہم خود ہیں) کی گردن مسلسل چھری تلے آئی رہتی تھی۔ کیپٹن ظلِ حسنین یونٹ ایڈجوٹنٹ تھے اور ہم سیکنڈ لیفٹین مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ان کے روم میٹ۔ وجہ یہ تھی کہ ہمارے کتب بینی اور موسیقی کے ذوق بہت ملتے تھے۔ اللہ کیپٹن حسنین کا اقبال بلند کرے ایڈجوٹنٹ ہونے کے ناطے آپ کٹھور افسر تو تھے ہی فرائض کی ادائیگی میں اپنے سے جونیئرافسروں کو زچ کرنے کا اللہ بھلا کرے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ بہت دفعہ ایسا ہوا کہ ڈیوٹی افسر کے فرائض کی انجام دہی میں آپ نے اس مظلوم افسر کو رات کے تینوں پہر مختلف اوقات میں یونٹ کی گارڈ چیک کرنے بھیجا اس احتیاط کے ساتھ کہ درمیانی وقفے میں گھڑی بھر کو آنکھ تو لگے مگر نیند کی راحت سے پہلے ہی ہڑبڑا کر اگلے راؤنڈ کا وقت ہوجائے۔
بہت دفعہ ایسا ہوا کہ مصحفی کا کلام طاہرہ سید کی آواز میں سنتے ہوئے ہم کمرے سے گارڈ معائنے کا مہورت کرنے پہلے راؤنڈ پر روانہ ہوئے
آتا ہے کس انداز سے ٹک ناز تو دیکھو
کس دھج سے قدم پڑتا ہے انداز تو دیکھو
اور تیسری دفعہ کے گارڈ معائنے سے واپسی پر کیپٹن حسنین نے بصد ناز و فرمائش ملکہ پکھراج سنوائی
لطف آنے لگا جفاؤں میں
وہ کہیں مہرباں نہ ہوجائے
بے زبانی زباں نہ ہوجائے …
اور پھر کچھ ہی دیر میں فجر کے بعد وہ پو پھٹی وہ کرن سے کرن میں آگ لگی کے سمے میجر نقوی کے کمرے سے مانوس تان بلند ہوتی
من اٹکیا بے پرواہ دے نال ۔۔۔
اس تمام جنجال پورے میں اپنی دھن میں رہتا ہوں ، میں بھی ‘اپنے’ جیسا ہوں کی کامل تفسیر میجر زاھد اشرف بھی تھے۔ روزانہ شام کو بلاناغہ ٹیبل ٹینس کی نشست پر ٹی وی روم کے ڈیک پر اونچی آواز سے فلم کوئلہ کا مادھوری ڈکشٹ پر فلمایا گیت سنتے اور سنواتے۔ صاحبو کویتا کرشنامورتی نے بھی تو یہ کلام کچھ جی توڑکے گایا ہے
اپنے من کی میں جانوں، پی کے من کی راااام
سانسوں کی مالا پہ ۔۔۔۔
سن کے میجر صاحب خود بھی مائل بہ گداز ہوتے اور ان کی حالت دیکھ کے ہمارا بھی دل پسیج جاتا
آپ بھی اشکبار ہو مجھ کو بھی اشکبار کر
بہت بعد کے دنوں میں جب ہم اکتسابِ گنری کی نیت سے عازمِ نوشہرہ ہوں گے تو میجر زاھد بھی سکول آف آرٹلری میں سکونت پذیرہوں گے۔ تب تک منی رتنم، اے آر رحمان اور گلزار کی جوڑی ‘دل سے’ تخلیق کر چکی ہوگی۔ گنری کے پیچ و خم سے جب دل گھبرائے گا تو اسے میجر زاھد اشرف کی بیٹھک میں ہی اماں ملے گی۔ اور تب لتا کی فنی معراج ’جیا جلے جاں جلے نینوں تلے‘ کی سریلی نزاکتیں میجر زاھد کے سوا ہمیں اور کون سمجھائے گا ….
2

گیتاں دے نیناں وچ برہوں دی رڑک
رتڑا پلنگ
ریاست ہائے متحدہ اگوکی سے جبکہ آپ وزیرآباد روڈ پر سیالکوٹ کینٹ کی طرف جائیں جیسا کہ عباسیہ کے افسر اکثر جایا کرتے تھے تو ہرڑ کے بس سٹاپ پر برلبِ سڑک ایک ہوٹل تھا جس کے منجے بسترے روڈ سے ایک دعوتِ استراحت دیتے صاف نظر آتے تھے۔ ساتھ ہی پانی کی ٹنکی کے اوپر کنکریٹ سے بنے کنگ سائز فٹبال پر ایک نام نظر پڑتا تھا ’رتڑا‘۔ یہ غالباً رتڑا سپورٹس اینڈ کو کا سائن بورڈ تھا۔ فوجی جیپ کی پچھلی نشست پر بیٹھے سفر کی سمت سے ایک زاویہ قائمہ بناتے ہم نے اکثر اس سائن بورڈ کے عنوان ’رتڑا‘ اور ڈرائیور ہوٹل کے پلنگوں کو ایک ہی فریم میں دیکھا اورہمیں ہر دفعہ شِو کمار بٹالوی اور نصرت فتح علی کی یاد آئی۔
تو صاحبو بات اور رات کچھ پرانی ہوچلی ہیں مگر وہ جو بھلے سے پنجابی گیت کے اتنے ہی بھلے سے بول ہیں:
تینوں پچھے مڑ کے تکنا دل نوں پھبدا اے
جیویں گزریا ویلا اکثر چنگا لگدا اے
ہمیں بھی گزرے وقت کی دلکشی سمیت دونوں یاد ہیں، بات بھی اور رات بھی۔ رات تو ابھی کچھ آگے چل کر آئے گی، پہلے قصہ ایک بات کا۔
یار لوگ اسے جراسک پارک کہتے تھے۔ مین گیٹ میں کوئی خاص بات نہ تھی، ہاں ساتھ کی دیوار پہ ایک قرآنی آیت آنے والوں کا استقبال کرتی تھی۔ پانچ میل کی دوڑ اسی مین گیٹ سے شروع ہوتی، حبیب اللہ کالونی کی راہِ سکون سے گزرتی، پی ایم اے روڈ کی ایک جان توڑ عمودی چڑھائی چڑھتی، اسپتال (PMAH) کی طرف سے باہر نکلتی جناح آباد کے راستے مین گیٹ کو واپس پلٹتی تو ایک مشقت میں سانسوں کی ڈوری کو تھامتے، تھکی ہوئی ٹانگوں کو سوجتنوں سے بھگانے پر راضی کرتے جراسک پارک کو پلٹتے کیڈٹ بے ترتیب ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ اس آیت کو پڑھتے تو ترجمہ اور تفسیر بمعہ پرچۂ ترکیبِ استعمال سب سمجھ میں آجاتے:
لیس للانسان الا ما سعی
انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی
جن دنوں کا یہ ذکر ہے جنرل رضوان قریشی نے پی ایم اے کی باگ دوڑ ابھی سنبھالی ہی تھی۔ موصوف کو پانچ میل کی دوڑ سے خاص انس تھا۔ منگل کے دن جبکہ کمپنی میسزمیں لنچ میں حلیم پکتا اور یار لوگ شکم سیر ہو ہتھیار صفائی کی چندیاں اور پُل تھرو سیدھے کر رہے ہوتے تھے، کمانڈنٹ آرڈرز آجاتے تھے
Weapon cleaning is hereby cancelled. GCs will go for 5 Mile Run.
بس پھر کیا تھا، یارانِ طرحدار، اسی ہتھیار صفائی والی رائفل کوکندھے پر ٹانگ، چھبیس آرٹیکل (جنکی گنتی کیڈٹ کی زندگی میں کبھی پوری نہیں ہوتی) کا سمال پیک کندھوں پر اُٹھا، شکم میں ٹھاٹھیں مارتے حلیم اور پانی کے محلول کے ساتھ خود کو بھاگنے اور بھاگتے رہنے پر آمادہ کرتے۔ دل میں اور زبان پر جنرل رضوان کی شان بلند کرنے کا ورد جاری ہوتا۔ اللہ جنرل صاحب کی پنشن آباد رکھے، آپ کی جاری کردہ جسمانی مشقت کی کئی بدعتیں کیڈٹوں کی آئندہ نسلوں کا مستقل ٹریننگ کریکولم بن گئیں۔ کاکول رینجز کی ہمسائیگی میں ٹھوس لکڑی کی بلیوں کو کندھوں پر اٹھائے ‘ایسڈ’ ٹیسٹ دوڑتے کیڈٹ ہوں یا پھر ہری پور سے آگے سری کوٹ کی گھاٹیوں میں گھات لگاتے ٹی ایم ریڈرز، انگریزی محاورے کے مطابق جنرل صاحب کا فیض جاری و ساری ہے (His legacy goes on)۔
دیکھیے اس مرتبہ تو ہم تحریر کے آغاز میں ہی بھٹک گئے۔ صاحب ذکر ہو رہا تھا جراسک پارک کا۔ پی ایم اے کی تھرڈ پاکستان بٹالین کا یہ نام کیوں پڑا، یہ سمجھایا نہیں جا سکتا، ہاں دکھایا جا سکتا ہے اس صورت میں جب آپ یہاں کیڈٹ ہوں۔
جراسک پارک
آج کاکول کا نام آتے ہی پاکستان ملٹری اکیڈیمی کی عالیشان فوجی درسگاہ کا تصور دماغ کے پردے پر اترتا ہے، مگر بہت سال نہیں بیتے کہ یہاں یہ تام جھام نہیں تھا
کاکول، جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا!
1902 میں جنوبی افریقہ سے بوئر وار کے جو جنگی قیدی انڈیا لائے گئے تعداد کے حساب سے ان کا سب سے بڑا گروپ ایبٹ آباد کی قربت میں کاکول نامی گاؤں کے پاس ایک عارضی کیمپ میں ٹھہرایا گیا۔ کیمپ تو یہاں کچھ مہینے ہی رہا مگر یہ کاکول کے فوجی تشخص کی ابتدا تھی۔ کاکول کے پاس آج بھی بوئر وار کے جنگی قیدیوں کے قبرستان کی باقیات موجود ہیں۔ بعد میں یہاں سپلائی اینڈ ٹرانسپورٹ کی ایک بٹالین تعینات رہی۔ قیامِ پاکستان کے بعد دہرہ دون کی انڈین ملٹری اکیڈیمی کی طرز پر یہاں پاکستان ملٹری اکیڈمی وجود میں آئی۔
کاکول سے ذرا ہٹ کے میرپور کی پہاڑیوں کے دامن میں ٹوبے کیمپ قیامِ پاکستان کے وقت آرمی سکول آف فزیکل ٹریننگ کا مسکن بنا۔ بعد کے سالوں میں یہاں کی بارکوں نے پاکستان ملٹری اکیڈیمی کی سیکنڈ پاکستان بٹالین کو خوش آمدید کہا۔ اس سے پہلے کہ ہم جیسے قسمت کے دھنی تھرڈ پاکستان بٹالین کے سپوت ٹوبے کیمپ پدھارتے، ستّر اور اسّی کی دہائی میں یہاں جونیئر کیڈٹ بٹالین آباد ہوئی اور اپنی طبعی موت مرجانے تک یہیں رہی۔ ایک محدود عرصے تک چلنے والی جونیئرکیڈٹ بٹالین بھی ایک نیا تماشہ تھی۔
یہاں مشکل یہ آن پڑی ہے کہ اپنے پڑھنے والوں کو جونیئر کیڈٹس کورس کیسے دکھائیں۔ یوں سمجھیے کہ جہاں ہم جیسے لانگ کورس کے گُرگوں کو انٹر کرلینے کے بعد ایک تیکھے نقوش اور ان سے بھی تھیکی نظروں والی ایک شبیہ نے زاویہ قائمہ پر اُٹھی انگشتِ شہادت (جس کا مخاطب و ممدوح کوئی بھی ہوسکتا تھا مگرہم جیسے سادہ دل سمجھے کہ ہم ہیں) سے زیر بارِ احسان کیا تھا۔ وہیں جونیئرکیڈٹس اللہ کی وہ برگزیدہ روحیں تھیں جنہیں اپنا مقصدِ حیات میٹرک کے سنِ نوعمری میں ہی سمجھ میں آ گیا تھا۔ اس کچی پنیری کا تو ابھی ڈھنگ سے کچھ بھی نہیں بھیگا تھا، نہ دماغ کی نسیں اور نہ ہی چہرے کی مسیں۔ میٹرک پاس ان سویلین لونڈے لپاڑوں کو پہلے تو فوج JCB کی فوجی تربیت کے جھانسے میں انٹر کرواتی اور پھر ملٹری اکیڈیمی کی وارداتِ قلبی کے پھیرمیں گریجویشن کا تڑکا لگاتی گیزیٹڈ افسروں کی کھیپ پاک فوج کے حوالے کردیتی۔ جے سی بی دراصل فوج میں کمیشن لینے والوں کا وایا بٹھنڈا گروپ تھا۔
وسط مئی 1995 کی ایک روشن دوپہر جب ہم بمع اپنے جستی ٹرنک کے اس عالیشان گیٹ سے اندر داخل ہوئے جہاں اللہ کی نصرت سے فتح کی بشارت دی جارہی ہے تو اکیڈیمی میں فرسٹ اور سیکنڈ پاکستان بٹالین کی ملا کر کل آٹھ کمپنیاں تھیں۔ نئے تعمیر شدہ جدید سہولتوں سے آراستہ ہالز آف سٹڈیز، کمپنی میسز اور رہائشی بلاکس ود اٹیچڈ باتھ رومز اینڈ ہیٹرز۔ یہ مجموعی طور پر مین پاک کہلاتی تھی۔ لیکن صاحب ایک تو ویسے ہماری دُھنّی میں کھُرک ہورہی تھی اور دوسرے ہم قسمت کے بھی دھنی واقع ہوئے ہیں تووسط مئی کی اس ملگجی شام کوارٹر ماسٹر سٹور کے گناہوں کی گٹھڑی کندھے پر لادے جب ہم ڈھائی ٹن ٹرک میں ڈھوئے جارہے تھے تو ہمارے پاسپورٹ پر تھرڈ پاکستان بٹالین کی عبیدہ کمپنی کا ویزہ لگ چکا تھا۔ تھرڈ پاکستان بٹالین کاکول میں نہیں تھی اور اس کے چاؤ چونچلے بھی کاکول والے نہیں تھے۔
منڈیاں کے سٹاپ کی قربت میں میرپورکی پہاڑیوں کے دامن میں ٹوبے کیمپ کی بارکوں اور اُنّی سو تُنّی کے وقت کے بلغمی دھواں اگلتے کوئٹہ سٹوو کی پرت دار دھند میں مین پاک سے کوسوں دور یہ جراسک پارک تھی۔ صاحبو، تھرڈ پاکستان بٹالین پاکستان ملٹری اکیڈیمی کی کالے پانی کی سزا تھی۔ جزائرِ انڈیمان تک آمدورفت کا یہ فاصلہ کیڈٹ دوڑتے قدموں سے یا پھر کبھی کبھار جب قسمت اچھی ہو ڈھائی ٹن ٹرک کے پچھواڑے بیٹھ کر طے کرتے تھے۔
عبیدہ 95 کا جنرل وارڈ
بٹالین روڈ کے عین اوپر عبیدہ کمپنی کی جس بارک میں 95 لانگ کورس کے پناہ گیروں کی آباد کاری عمل میں آئی اس کے دونوں سروں پر دو ہال نما کمرے تھے اور درمیان میں پیچھے کو نکلتی ایک راہداری۔ سرکاری اسپتال کے جنرل وارڈ سے مشابہ ہمارے کمرے میں 12 جنٹلمین کیڈٹس آپسی روم میٹ تھے اوردیواروں سے ڈھو لگائے اسی گنتی کے نواڑی پلنگ۔ ہر پلنگ کے نیچے اس پر متمکن کیڈٹ کا جستی ٹرنک اور ہر نواڑی جھلنگے کے سرہانے ایک دلربا بے اعتنائی سے کھڑی متوسط طبقے کی دلہن کے جہیز کی ٹریڈ مارکہ موٹے چادر کی کھڑک دار لوہے کی الماری۔ یہ تھی کل متاعِ فقیر اور اس میں بھی یاروں نے آنے والے دنوں میں چند تصویرِ بتاں اور ایک حسینہ کے خطوط کا حیلہ کر ہی لیا تھا۔
اس جنرل وارڈ میں صبحِ صادق کے وقت ڈرل کے زیرو پیریڈ کا صور پھونکا جاتا تو ایک بیدار ہوتی افراتفری اور ہڑبونگ میں یہ کسی شعبۂ حادثات کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ کا منظر پیش کرتا۔ عجب نفسا نفسی کا عالم ہوتا۔ ہال نماکمروں سےبرآمد ہوتے وسطی راہداری کا رُخ کرتےکیڈٹس قطار اندر قطار چلتے چلے جاتے
اپنا تولیہ سمیٹے گا بچھائے گا کوئی
بے وفائی کی گھڑی ترک مدارات کا وقت
اس گھڑی اپنے سوا یاد نہ آئے گا کوئی
ترک دنیا کا سماں ختم ملاقات کا وقت
پانچ سو مربع گز سے رقبہ تو کچھ زیادہ ہی بنتا تھا، مگر عبیدہ 95 کی اس بارک پر ہو بہو اپنے مشتاق یوسفیؔ کی آبِ گم والی حویلی کا گمان ہوتا تھا کہ کیڈٹس کے اس اژدحام میں عقل دھرنے کی جگہ نہ تھی اور صاحبو اگر ہوتی بھی تو دھرنے کو عقل تھی کس کے پاس۔ فی مربع گز پرسنل سپیس کی اسقدر تنگی کہ الاماں۔ دیکھیے ہمارے ذہن میں کچھ جانے پہچانے استعارے آرہے ہیں۔ کہ رات کو سوتے میں کسی کا خواب کسی کو آرہا ہے اور اس کونے میں کسی نے جو کھجا کھجا کے لال کردی ہے مگر قرار نہیں آیا وہ کسی اور کی کہنی ہے۔ ہم لکھنے کو یہ سب لکھ تو دیں مگر ڈرتے ہیں کہ ایک کمیونٹی واش روم کے اجتماعی ہنگام میں ہمارے پڑھنے والے کہیں کی چیز کہیں فٹ کر کے اپنی مرضی کے مطلب نکالتے پھریں گے۔ تو صاحبو اتنی وضاحت ازبسکہ ضروری ہے کہ نہانے اور دھونے میں ہرکوئی بلاشرکتِ غیرے خود مختار تھا۔ ہاں چند ایک دھلائیوں کے بعد بنیان اور انڈرویئر سانجھے ہوگئے تھے۔ خود ہمارے پاس سمال سے ایکسٹرا لارج تک ہر سائز کا ایک ایک پیس دستیاب تھا۔
اسی جراسک پارک کے ایک گوشے میں نو تعمیر حمزہ بلاک بھی تھا، جس کے کمرے چمکیلے اور فرش لشکیلے تھے۔ اسے حمزہ بلاک اس لیے کہتے تھے کہ مڈھ قدیم سے یہاں حمزہ کمپنی آباد تھی۔
حمزہ بلاک کی ایک رات
تو بات حمزہ بلاک کی ایک رات کی ہے، جب عید کی چھٹیاں تھیں اور جیسا کہ اکیڈیمی کی ریت ہے، پنشمنٹ پریڈ کی ریسٹرکشنز (restrictions) پر ہونے کے سبب جو گُرگے چھٹی جانے سے روک لیے گئے ان میں ہم بھی شامل تھے۔ لیکن حمزہ بلاک کی اس دلگیر رات کاکول کی دلربا (صاحبو مراد اس سے پی ایم اے ہے) کی چشمِ ناز کے دیرینہ گاہکوں میں ہمارے علاوہ دو اور لوگ بھی تھے۔ 94 پی ایم اے لانگ کورس کے ڈبل ریلیگی عمر سعید اور پچانوے لانگ کورس کا افضال۔
تو صاحبو یہ تگڑم تھی، ایک ویران تھرڈ پاکستان بٹالین کی چشمۂ مہتاب سے دُھل کے نکلتی رات تھی، شِو کمار بٹالوی کے بول تھے اور داسنگنگ بُدھا نصرت فتح علی کی تان تھی
آکھ سُو نی کھالئے ٹُک
ہجراں دا پکیا
لیکھاں دے نی پُٹھڑے توے
چٹ لے تریل لُونی
غماں دے گلاب توں نی
کالجے نوں حوصلہ رہوے
شِو کے اس سلوُنے گیت کو نصرت کی بین کرتی ہنستی گاتی آواز میں ڈِسکوَر کرنے اور ہم سے متعارف کروانے والے سر عمر سعید تھے۔ ہم ان کا یہ احسان رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے۔ جب جب اس بے نظیر کلام کے بول ایک آفاقی دُھن میں ہمارے کانوں میں رس گھولتے ہیں ہم سر عمر سعید اور ان کے احسان کو یاد کرتے ہیں
پیار اوہ محل ہے نی
جیہدے وچ پکھیروواں دے
باجھ کُجھ ہور نہ رہوے
پیار ایسا آلھنا ہے
جیہدے وچ وصلاں دا
رتڑا نہ پلنگ ڈہوے
مائے نی مائے ۔ ۔ ۔
ایک بہت بعد کی ’مُجھے وداع کر‘ والی رُت میں میجر افضال نے اپنے خون کی لالی سے مادرِوطن کی مانگ کو سینچنا تھا اور فوج کے ایک دستے نے پورے اعزاز اور آخری سلام کے ساتھ ہمارے یار کے جسدِ خاکی کو ربوہ کے قبرستان میں تازہ کُھدی قبر کے حوالے کردینا تھا۔ ملٹری پولیس کی سُرخ رنگ کی ٹوپی پہنے پچانوے کے دلدار میجر (لالہ) مجاہد نے کیمرے پر آکر اپنے شہید کورس میٹ کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا اور ہماری بھابھی مسز میجر افضال نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ ملتجیانہ لہجے میں ایک شکوے کی کاٹ لیے کہنا تھا ’ہمارے عقیدے سے قطع نظراس وطن کی بنیادوں میں ہم لوگوں کا بھی لہوہے‘۔ صاحبو خون پھرخون ہے بہتا ہے تو جم جاتا ہے۔ ہمارے میجر افضال کا تعلق اسی اقلیت سے ہے کہ ہمارے وزیرِاعلیٰ پنجاب خیالی پلاؤ میں ایک نیلی مسجد تعمیرکرتے ہیں تو اس کےدروازے پر ایک بورڈ لگانےکا عندیہ بھی دیتے ہیں ’قادیانی یہاں اندر نہیں آسکتے‘۔

میجر عمر سعید نے بھی آرمی ایوی ایشن کی سیر حاصل سروس کے بعد فوجی محاورے کے مطابق اپنے بوٹ ٹانگ ایک کمرشل ایئرلائن میں پائلٹ کی نشست سنبھال لینی تھی۔ مگر اس سب میں ابھی دیر تھی، ٹوبے کیمپ کی اس جواں ہوتی نکھرتی رات سے کچھ سالوں پرے کا ذکر ہے، افضال کی ہنستی آنکھوں اور پھولتی رگوں میں ابھی زندگی سانس لیتی تھی، سرعمرسعید ابھی وردی میں تھے اور ہم بھی کندھے پر دو پھولوں کی بہار سجائے ریاست ہائے متحدہ اگوکی میں تعینات تھے۔ وہی اگوکی جس سے وزیرآباد روڈ پکڑ اگر سیالکوٹ جائیں تو راستے میں برلبِ سڑک ایک چھوٹا ہوٹل نظر پڑتا تھا جہاں ایک کنکریٹ کی ٹنکی پر ایک نام جگمگاتا تھا ’رتڑا‘۔ اور جہاں کے پلنگ سامنے بچھے ایک دعوتِ استراحت دیتے تھے۔ اور ہمیں شِو کمار بٹالوی اور نصرت فتح علی خان والے پیار کے آلھنے میں وصلاں والے رتڑے پلنگ کی یاد آتی تھی۔
وہی اگوکی جہاں سیاچن کے برفاب سے جب عباسیہ پلٹی تو ’کچھ بھی نہیں کرنے‘ والے حسین دن چل رہے تھے ۔۔۔
3

مغلِ اعظم اور بڑے غلام علی
اُٹھو انار کلی!
کچھ عرصہ قبل انٹرنیٹ کی دنیا پر ایک مغلیہ ’مِیم‘ (فکاہی خاکے) کا بہت چرچا رہا جس میں شہزادہ سلیم انارکلی کو خوابِ شیریں سے بیدار ہونے اور کچھ غیرمتعلقہ امورکی انجام دہی کی ترغیب دیتے نظرآئے۔ ہم نے جب جب شہزادے اور انارکلی کی یہ تصویر دیکھی یادداشت کے سیلولائیڈ پردے پرایک ہی منظر پلٹ پلٹ آیا۔ ریاست ہائے متحدہ اگوکی میں عباسیہ کے میس کا ٹی وی روم، ماڈل ٹاؤن کے قلب میں بھیگتی رات کا پچھلا پہر، تالو میں ابھی تک تازہ اپنے ذائقے کی گواہی دیتا میس ویٹر طارق کی بِیٹ کی ہوئی کافی کا آخری گھونٹ۔ ٹوٹوں (سگریٹ کے) سے لبالب اٹی ایش ٹرے سے اُٹھتے دھوئیں کا نقرئی ہالہ۔ ڈن ہِل کے انگلیوں کو چھوتے گُل کی دھیمی تپش (ڈن ہِل تو ہم نے منظر میں رنگ بھرنے کے لیے لکھ دیا۔ کچھ ہی عرصے میں دونوں افسران عباسیہ کے ٹریڈ مارک برانڈ کپستان Capstan پر آگئے تھے)، ایک جان لیوا آخری کش سے مہکتے ہونٹ اوروی سی آر پر ریوائنڈ پر چلتا کے آصف کی مغل اعظم کا گیت۔
دیکھیےساراماحول ایک غیرمتعلق تفصیل کی منظرنگاری کی نظر ہوگیا۔ فوکس ہم گانےپرکرنا چاہ رہےتھے۔
مغل اعظم میں شہزادہ سلیم اور انارکلی پر پائیں باغ کی خلوت میں فلمایا گیا راگ داری کا رس لیے یہ نغمہ فلم میں تو تان سین گارہے ہیں مگراس گانے کے اصلی پلے بیک سنگر استاد بڑے غلام علی خاں ہیں۔ یہاں مزے کی بات یہ ہے استاد فلم کے لیے نہیں گاتے تھے۔ اب اگر آپ موسیقار نوشاد کو سنیں تو وہ بتائیں گے کہ کیسے ایک پچیس گنا معاوضے پر (جواستاد نے پروڈیوسر کو بھگانے کے لیے بتایا تھا) کے آصف صاحب نے بغیر کسی ہچکچاہٹ یا بھاؤ تاؤ جھٹ سے حامی بھرلی۔ نوشادصاحب آنکھوں میں ایک چمک لیے اس گانے کی ریکارڈنگ کا ذکرکرتےہیں کہ خان صاحب نے گاتے ہوئے فرمائش کرکے ویڈیو ریکارڈنگ کا لوُپ اپنے سامنے پردے پر چلوایا۔ صاحبِ ذوق سننے والے پہچان لیں گے کہ مختلف جگہوں پر سین کی مناسبت سے تان، مُرکی اور کھنک الگ ہے۔
ہم ٹھہرے موسیقی کی نزاکتوں سے کورے، تانوں اور مُرکیوں کا مزاج کیا جانیں مگر صاحب اُگوکی کی اپنے ہی خمارمیں بھیگتی اُس رات مغل اعظم کا ’پریم جوگن‘ سنتے جہاں ساجن سے نین ملنے پرمن کی پیاس بجھنے کا ذکر ہے اور شہزادے اور کنیز کو باہم ملاتا اور جدا کرتا مور کا پنکھ ہے اور استاد کی آواز میں لفظ پیاس کے موسیقانہ ہِجّے ہوتے ہیں بس وہیں کہیں راگنی سلگ اٹھتی ہے
تم اپنی زبان مرے منہ میں رکھے جیسے پاتال سے میری جان کھینچتے ہو
صاحب اگوکی کی بہت سی راتیں اسوقت کے کیپٹن آج کے بریگیڈیئر بخاری کی سنگت میں استاد کے اس گانے کی گنجلک تانوں کی نذرہوگئیں مگر دلِ مضطر کو قرار نہ آنا تھا نہ آیا۔
یہ بعد کا قصہ ہے کہ ہم بڑے غلام علی خاں کی ’توری ترچھی نجریا کے بان‘ کے اسیر ہوئے۔
کپتان صاحب کی سنگت میں اگوکی کی راتوں نے کچھ اور دھنوں کے پہناوے میں ابھی مزید نکھرنا تھا۔ اے آر رحمان کے سُروں پرالکا کی ’تال سے تال ملا‘ کی للک، سُشمیتا سین کی آنکھوں سے جھانکتا الکا ہی کی آواز کا کنگن پہنے ’تم سے ملنے کے بعد دلبر‘ کا لوچ، ایک کھلنڈرا، لا اُبالی سا رمتا جوگی کی بانی پڑھتا ہوا نوجوان افسر، ساتھ کے کمرے کی دیوارِ گریہ کے سائے تلے ملکہ پکھراج کا ’بے زبانی زباں نہ ہوجائے‘ کا الاپ، اورایک ہنستی کھیلتی شاد و آباد جمی بساط پر ٹُو ہارٹس، تھری نوٹرم کی بلند ہوتی صداؤں کے پس منظر میں کھنکتا میجر چشتی رحمتہ اللہ علیہ کا فیورٹ اپنی میڈم کا
کی دم دا بھروسہ یار
دم آوے نہ آوے
’دل بھٹکے گا‘ کے استاد بڑے غلام علی
مگر یہ قصہ پھرکبھی، فی الوقت استاد بڑے غلام علی خاں کی اور پلٹتے ہیں جنکا ذکر دل بھٹکےگا کا جمال (احمد بشیر) کرتا ہےکہ وہ ’آہوُ‘ کی فرمائش پر گانا سنوانے اسے باتھ آئی لینڈ لے گیا جہاں استاد ایک بنگلے کے ’سرونٹ کوارٹر‘ میں رہتے تھے۔ استاد کا گھر آئے مہمانوں کا دسترخوان پر استقبال اور پھر جمال اور آہو کی نظر تورے نینا کجر بِن کارے تو ایک اور ہی دنیا کا قصہ ہے۔
منظر بدلتا ہے، وزیروں اور مشیروں کا ایک گروہ ہے جو ایک ثقافتی طائفے کی شکل میں ریل پر کراچی سے موہنجودڑو کا سفر کر رہے ہیں۔ حیدرآباد میں جہاں وزیراعلیٰ کی طرف سے کھانے کا انتظام تھا وہاں طعام کے بعد ریسٹ ہاؤس کے باغیچے میں گانے کی محفل میں استاد بڑے غلام علی مدعوہیں۔ جمال سے روایت ہے استاد کے راگ سارنگ کے الاپ کے دوران ممبران اسمبلی ایک ایک کر کے غائب ہوتے گئے جو بعد میں ایک گروپ کی شکل میں دوبارہ نمودار ہوئے تو عقدہ کھلا کہ ریسٹ ہاؤس کے اندر حیدرآباد کی طوائفیں بلائی گئی تھیں۔ پارلیمنٹ کے ممبروں کے ذوق کا معیار دلداری کا بھونڈا پن لیے ایک طوائفانہ مجرا تھا۔
بہت بعد میں جب بڑےغلام علی خاں ہندوستان چلے گئے تو احمد بشیر نے ٹی وی پر دیکھا کہ موسیقی کی ایک محفل میں استاد جب اسٹیج پر آئے تو ان کا تانپورہ اٹھائے مُرارجی ڈیسائی ان کو چھوڑنے آئے۔ مُرارجی ڈیسائی تب بمبئی کے وزیراعلیٰ تھے اور بعد میں ہندوستان کے وزیراعظم بنے۔
اس حساب سے دیکھیں تو ہمیں ان اراکینِ اسمبلی کا مشکورہونا چاہئیے جنہوں نے حیدرآباد میں استاد کے فن پر رنڈی بازی اور مجرے کا انتخاب کیا۔ بڑے غلام علی خاں اگر بھارت نہ جاتے تو مغل اعظم کے اس لازوال گانے کو یہ کھنکتے بانکپن کی آواز کہاں سےملتی
شہزادہ سلیم اور انارکلی کیا راز و نیاز کرتے
ساجن سنگ نین ملنے پر من کی پیاس کے الاپ کا کیا ہوتا
اور صاحب اگوکی کی راتیں کسقدر پھیکی ہوتیں
انارکلی اٹھو حیدرآباد آگیا ہے …

