گلشنِ (حدید) کے آوارگانِ شام

دنیا تو سدا رہے گی ناصرؔ
ہم لوگ ہیں یادگار کچھ دیر
ونٹیج پاکستان کے فیس بُک کے صفحے سے مستعار لی اوپر والی تصویر لاہور کے پاک ٹی ہاؤس کی ہے جہاں ایک بے نیازی سے اُٹھے ہاتھ میں سگریٹ تھامے ناصرؔ کاظمی کے ساتھ انجم رومانی، انتظار حسین اور شہرت بخاری بیٹھے ہیں۔ ناصر کاظمی کی برسی پر انہیں یاد کرتے یہ تصویر دیکھی تو گزرے کل کے دریچوں سے بے اختیار گلشنِ حدید کی شفق رنگ شاموں اور ان کو آباد کرتے آوارگانِ شام کی یاد آئی اور اس کے ساتھ چھوٹی بحر کے سلطان ناصرؔ کا وہ لازوال شعر بھی جس میں دوستوں کے درمیاں وجہِ دوستی کی طرف اشارہ ہے۔
بھلے دنوں کا ذکر ہے کہ گلشن حدید میں اللہ بخشے تقی صاحب کا کوچنگ سنٹر ہوا کرتا تھا۔ بھلے دن تو ہم روا روی میں لکھ گئے، حقیقتاً تو انٹرمیڈیٹ کے بورڈ کے امتحان سر پر تھے اور ہوشربا دن اور نیندیں اڑا دینے والی راتیں چل رہی تھیں۔تو صاحب انٹر کے ہوشربا دنوں کا ذکر ہے کہ گلشن حدید میں اللہ بخشے تقی صاحب کا کوچنگ سنٹر ہوا کرتا تھا۔ ہاتھوں میں جہازی سائز کڑک چائے کا مگ جسکے مندرجات کو مسز تقی ہر پندرہویں منٹ ایک دلنشیں مسکراہٹ کے ساتھ ریپلینش (تازہ) کردیا کرتی تھیں۔ اندر کوچنگ کلاس میں چاک اور بلیک بورڈ کے مابین جاری گھمسان کی لڑائی کی بدولت اول الذّکر کی باقیات میں لتھڑی انگلیوں اور بتدریج سفید ہوتے گھنگھریالے بالوں والے سر تقی سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی انٹرمیڈیٹ میتھیمیٹکس کی ایک طلبا کُش مشق سے نبرد آزما ہو لینے کے بعد چائے کی چُسکیاں لیتے زیرِ مونچھ مسکراتے ایک فاتحانہ نظر اپنے شاگرد طلباء و طالبات پر ڈال لیتے تھے۔ صاحب دل لگتی کہیں تو ہمیں تو اس مسکراہٹ میں چھپی کمینگی (سر تقی اور اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کریں) کی جھلک صاف نظر آتی تھی کہ کچھ دنوں بعد امتحانوں کے طوق میں اترنے والی گردنیں تو ہماری تھیں۔
سر تقی کے کوچنگ سنٹر میں روز کی بنیادوں پر پیش آنے والی ریاضیانہ جھڑپ کا دف مارنے آوارگان شام کی ٹولی کہیں نہ کہیں مل بیٹھنے کا حیلہ کرتی۔ یہاں چلتے چلتے اپنے پڑھنے والوں کے لیے دف مارنے اور آوارگانِ شام کی تشریح کرتے چلیں۔ صاحب اول الذّکر ترکیب تو ہمارے ہر دلعزیز یوسفیؔ صاحب سے مستعار لی ہے۔ دف مارنے کو یوں سمجھ لیجیے کہ یوسفیؔ صاحب مرزا عبدالودودبیگ سے روایت کرتے ہیں
جوانی دیوانی کادف بیوی سےمارتےہیں اور بیوی کا اولاد سے، اولاد کادف سائنسی تعلیم سے مارا جاتا ہے اور سائنس کا اپنے یہاں دینیات سے۔ دف کا مرنا کھیل نہیں ہے ۔۔۔ الخ
رہ گئے آوارگانِ شام تو یہ چار درویش تھے، عارف، فرحان، وقاص اور ناچیز خود۔ یہ خوبصورت ترکیب ’آوارگانِ شام‘ وقاص ہی کی عنایت کردہ ہے۔ ان چہار درویشوں کی ٹولی کو خطیب نام کا پانچواں چاند بھی لگنا تھا مگر اس میں ابھی دیر تھی۔ ابھی یہ چار تھے اور کوچنگ سنٹرکی مار کے علاقے سے باہر اس چومُکھی کو جو امان ملتی تو کبھی فیزٹو کے جہانگیر کے چائے پراٹھوں میں یا پھر نیشنل ہائی وے کے ملوک ہوٹل کی کڑاہی میں۔اور صاحبو روز کڑاہی کھانے کے پیسے کس کافر کے پاس ہوتے تھے، انجمن ستائشِ امداد باہمی اکثر چائے کا حیلہ ہی کر پاتی۔ اس ایک ٹرک ڈرائیور مارکہ کڑک چائے کے پیالوں سے ماپتی گل ہوئی جاتی شاموں میں بات کہنے کے بہانے تو بہت تھے مگر کبھی کبھی برسبیلِ تذکرہ ایک اور ذکر بھی نکل آتا۔ وہ کہ
بھلی سی جس کی شکل تھی
نہ یہ کہ حسن تام ہو
نہ دیکھنے میں عام سی
صاحب اپنے احمد فرازؔ کہہ گئے ہیں کہ اول اول کی محبت کا نشہ تو بن پیے گلستاں بسانے کو پھرتا ہے یہاں تو پھر دو دوستوں کی مشترکہ محبت تھی۔ یہ اور بات کہ دونوں یکے بعد دیگرے صبرطلب عاشقی کی راہ سے بے تاب تمناؤں کے ساتھ ایک دوسرے کے حق میں دستبردارہو گئے تھے۔
یہ سب تو قصّۂ پارینہ ہوا مگر آج بھی جب یاروں کی ٹولی مل بیٹھتی ہے تو پانچ میں سے دو ایک مشترکہ یاد کی دھیمی آنچ پر مسکرا اٹھتے ہیں اور ایک تیسرا وقاص ناصرؔ کاظمی کے لفظوں کا گھونگھٹ اوڑھے دھیرے سے کہہ دیتا ہے
دوستوں کے درمیاں
وجہِ دوستی ہے توُ
ناصرؔ کی برجستگی اور ندرت خیال کا مزا لیجیے کہ ایک عمر کے کشٹ سے سینچی اس دلفریب یاری کو ایک گئے دنوں کی محبت کی پائیداری سنبھالے ہوئے ہے۔ اس ایک محبت کےصدقے اور کتنی محبتیں ہیں جو دلوں میں جوان ہیں۔ گزشتہ برس جب ناصرؔ کاظمی کی برسی پر یہ سطریں پہلے پہل لکھی گئیں تھیں تو وقاص سے ایک چُست مکالمہ ہوا تھا۔ اپنے پڑھنے والوں کے لیے اس مکالمے کا عکس مِن و عن یہاں نقل کیے دیتے ہیں۔
چہاردرویشوں کی اس ٹولی کےسیاق و سباق اور بعد ازاں پانچویں درویش کی آمد کے قصے کو ایک الگ شام چاہیے۔ خدا یاروں کو زندہ اور صحبت کو باقی رکھے تو یہ کہانی کسی اور دن کہیں گے
ناصرؔ کاظمی سے جڑی دوسری یاد ہمارے کیڈٹ کالج کے اردو کے لیکچر کی ہے۔ بہت وقت گزرجانے کے باعث ایک واضح شناخت ہمارے ذہن میں کچھ کچھ دھندلا گئی ہے۔ غالباً وہ پروفیسر ثروت اللہ قادری تھے یا پھر پروفیسر زبیر ہاشمی۔ کلاس میں لیکچر کے دوران خدا معلوم کس کے گزر جانے کا ذکر آیا تو انہوں نے وہ جاندار شعر پڑھ دیا
وہ ہجرکی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مرگیا وہ
فرمایا ناصرؔ کاظمی نے اپنے شعری مجموعے دیوان کا نام میرؔ کے شعر پر رکھا ہے
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
ہم اسی دن لائبریری سےناصرؔکی دیوان اٹھالائے۔ پرانےوقتوں کےاستاد نبض شناس ہوا کرتےتھے۔ دیوان کا 1977 ایڈیشن میرؔ ہی کے ایک اور لاجواب شعر سے معنون ہے
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
اگر آپ لاہور میں ہیں تو مکلیوڈ روڈ پر جہاں نکلسن روڈ کی شاخ نکلتی ہے اس سے ذرا پہلے داہنے ہاتھ مومن پورہ کے اداس قبرستان میں ایک قبر ناصرؔ کاظمی کی ہے۔ ایک زرد رو شام میں بھی اس راستے کا مسافر تھا جب ناصرؔ کاظمی کے مدفن پر دعاکے لیے کچھ دیر ٹھہرا تھا
وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصرؔ
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ