وہ دکان اپنی بڑھاگئے
لاہورکی جوبن پرآئی شام آسمان ابھی شفق رنگ تھاجب اس حویلی کی چھت پرجہاں کوُکوُز ڈین اپنےمہمانوں کاسواگت کرتاہےاپنا سانس متوازن کرلینےاور تو ا چکن کا آرڈر کامیابی سے دے لینے کے بعد ہم نے جو نگاہ دوڑائی تو بادشاہی مسجد کی قربت میں منظر رنگین ہو چلاتھا۔ رنگین قمقمے، خوش رنگ جھروکے اور ان روشن راہوں پرچہل قدمی کرتے ہم رنگ دمکتے چہرے۔دلبری کے سب اسباب مہیّا، دلربائی کے سب سامان فراہم، مگرپھر بھی ایک واضح کسر، ایک نمایاں کمی
کوئی کیوں کسی کالبھائےدل کوئی کیاکسی سےلگائےدل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
ہمارے پیروں سے ابھی تک ان روشوں جھروکوں اورچوباروں کی رنگین دھول اڑتی تھی جنہیں دنیا ٹکسالی کے نام سے جانتی ہے۔ اور پھر وہاں شاہی مسجد اور اس کے ہم نام محلے کی ہمسائیگی میں یادداشت کے پردے پر چناب کے اس پارسے ایک بھولی بسری داستان طلوع ہوئی۔ تو توصاحبو! اس کہانی کو بہت دن نہیں بیِتے کہ کاتب کے لکھے حروف کی سیاہی ابھی تازہ ہے ۔
کانوانوالی سرکارکی نگری سے کچھ کچھ شما ل کی سمت جچ دوآب کے زرخیزمیدانوں میں اس راستے کی قربت میں جو بل کھاتالڑھکتا کوٹلہ چلتا چلا جاتاہے ہم ذرا دم لینے کو ٹھہرے تھے ۔ آنجہانی اٹل بہاری واجپائی سے پرویزمشرف کے زبردستی کے مصافحے نے رزم گاہی ماحول کو کچھ نرم کردیا تھا ۔ مگر صاحب رزم ہو یا بزم فوج سکیم کے پیسے پورے کرواتی ہے۔ جنگ تو نہ ہوئی مگرعمرعزیزکے دو روشن سال چھاؤنی کےپکے مکانوں سے دور بہت دورایک تمبو قناتی رہائش اور ان گنت ٹریننگ سائیکل کی نظرہو گئے۔ پہلے پہل تو کیا افسرکیا جوان چھٹی بالکل بند تھی۔ کبھی کبھی لگتا تھا کہ ششماہی یا پھر نوماہی بیگارہے جو کاٹی جارہی ہے ۔ جیٹھ ہاڑ کی گرمیاں تو عسکری کارروائی کی گرما گرمی میں گزر گئیں۔
دس ہاڑ دا دوپہرہ کتھے کٹیئے
بابے بُلّھے دے پنجا ب دیئے جٹیئے
مگر جب سردیاں سرپہ آگئیں تو گنے کے کاشتکارپریشان ہوگئے ۔ ان دنوں پی ٹی وی پرخبرنامے کےدوران اکثرمحکمہ زراعت کا اشتہارچلاکرتاتھاجس کی اوپننگ لائن تھی گنے کےکاشتکار متوجہ ہوں۔ وقت گزرجانےکےسبب اب ہمیں اس مشہوری کامتن تویادنہیں رہامگر یہ اوپننگ لائن اس لیےبھی یادہےکہ یہ سنتےہی متاثرہ افسرکچھ کھنگورا سامارکےبے چارگی شکل پہ سجائے کنکھیوں سے کبھی ایک دوسرے کو اور کبھی کمانڈنگ افسرکودیکھتے تھے اور ہم جیسے جونیئرافسرجو ابھی گنے کے کاشتکار نہیں ہوئے تھے زیرلب مسکرادیتے۔ دیکھیے آپ کو کہا تھا کہ بات کھلے گی تو بہت دور جائے گی، سو چلی گئی۔
تو صاحب ایک ایسی ہی شام اس معنی خیزاشتہارکے کھنگوروں اور کنکھیوں کے بعد اووراے کپ آف ٹی ہمارے کمانڈنگ آفیسر نے وہ داستان سنائی جس کا ذکر شروع میں ہوا تھااور جو ٹکسالی کی یاتراکے بعد ہماری یادداشت پر اتری تھی۔ گئے دنوں کا ذکر ہےکہ ہمارے کرنل صاحب کے ابھی لفٹینی دور کے کھانے پینے اور کھل کھیلنے کے دن تھے ۔ نوجوان کرنل صاحب اوران کےایک لفٹین دوست نےپروگرام بنایا کہ وہ منڈی دیکھ کرآتےہیں جس کےنام کوکچھ ہیروں سے نسبت ہے۔ دونوں افسرسیالکوٹ سےبذریعہ بس لاہور واردہوئےاورجب شاہی مسجد کےپچھواڑےاسی کےہم نام محلےمیں شرم وشرمی اترےتو سِکھردوپہرے ان گلیوں اور چوباروں میں الّو بول رہا تھا ۔
کرنل صاحب سےمروی ہےکہ ہم منہ پھاڑکےکسی سےپوچھتے بھی توپتےکی بابت کیاپوچھتے۔ اورتواورنوواردان محلہ کی سہولت کےلیےکوئی سائن بورڈتک نہیں تھاجس پہ جلی نہ سہی خفی حروف میں لکھاملتا ہیرامنڈی میں خوش آمدیدیاپھرجی آیاں نوں وغیرہ۔ محلےکی دکانیں اورپان کےکھوکھےتک اس مدمیں مشکوک حدتک خفیہ تھے ۔
دونوں حضرات گنرہونے کی رعایت سے میپ ریڈنگ کے فن سے کامل واقف تھے اور کمال مہارت سے سکس فگرگرڈ ریفرینس نکال کر اتنا تو مطمئن ہوگئے کہ وہ مطلوبہ جگہ پہنچ گئے ہیں مگر وہاں نہ موتیے کے ہار، نہ کجلے کی دھار، نہ سولہ سنگھار کیے ایک دلنواز انداز سے لبھاتی اور بلاتی حسینائیں اور نہ ہی ڈبی پرنٹ مفلرپہنے بند مٹھی کیے چھنگلیا میں سگریٹ کا گل دبائے ایک آنکھ میچ کے کش لگاتے دنیاکی سب سے قدیم جنس کا بھاؤ تاؤ کرتے آڑھتی۔ کمانڈ پوسٹ میں کھڑے ہوکر میٹ میسج حل کرنے اور سکس راؤنڈ گن فائر فارایفیکٹ آرڈرکرنے والوں کوکون سمجھائے کہ بقول مرزاعبدالودودبیگ جس بازارمیں کوئلوں کی دلالی سے منہ کالاکرتےہیں اس ’ہیرامنڈی‘ میں توچہل پہل ہی سورج ڈھلےشروع ہوتی ہےرونق تب لگتی ہےجب رات کچھ کچھ بھیگ چلی ہو۔
توصاحب ہماری لفٹینی جوڑی باہمی اتفاق سےیہ رائےقائم کرکےپلٹی کہ ہیرامنڈی وچ کوئی بازارحسن نئیں۔ ایویں گلاّں بنٹریاں نیں ۔ آج کی ٹکسالی میں ایک ڈھلتی شام اورایک جوبن پر آتی رات کی چہل قدمی کے بعد اگر آپ کوُکوُز ڈین میں توا چکن تناول کرتے ہوئے سوچیں جیسا میں اس شام تھا تو آپ کی بھی رائے یہی ہوگی ایویں گلاّں بنٹریاں نیں

تو صاحبو جیسا کہ تارڑ صاحب نے راکھ میں لکھا تھا کہ جیسے آغا حشر کے ڈراموں میں منظر بدلتا ہے تو بعینہٖ ویسے منظر بدلتا ہے
سلسلۂ روزوشب نقش گرِحادثات ہے کہ جسکا تارِحریرِدورنگ کیاکیا پیرہن بُنتا، سنوارتا اور پھرمٹاڈالتاہے۔ 1860میں کھینچاگیاولیم سمپسن کاایک گریفائٹ سکیچ ہےجس کی آڑی ترچھی لکیریں ہمیں گئےوقتوں کےٹکسالی گیٹ کی جھلک دکھاتی ہیں۔ اس طرح دار سکیچ کے پس منظرمیں کچھ شکستہ محرابیں ہیں اور پھر ایک بل کھاتی رہگزرہے کہ اونچی اور جاندارفصیلوں سے جاملتی ہے۔ کہتےہیں کہ اکبربادشاہ نےشہرکی مغربی دیوارکو حملہ آوروں سےبچاؤکےلیےایک دفاعی فصیل کی طرزپراٹھایا تھا اور اس میں آمدورفت کے لیے صرف ایک در رکھا تھا۔ ٹکسالی گیٹ شہرلاہور کی مغربی سمت کاواحددروازہ تھا ۔
پرانےلاہورکےکھوجی ماجد شیخ کہتےہیں کہ شہرکے شرقاً غرباً پھیلاؤسےپہلےلوہاری دروازے سے، جولاہورکےقدیم ترین دروازوں میں سےایک ہے اندرجائیں توکوچہ کبابیاں کی ہمسائیگی میں جوچوک آتاہےوہ پرانے وقتوں کا چوک چکلہ ہےاوراس سےمشرقی سمت جو گزرگاہ نکلتی ہےوہ بازار چوک چکلہ کہلاتی تھی۔حفظان شریعت کے اصولوں کےعین مطابق چوک کاموجودہ نام چوک بخاری رکھ دیا گیاہے۔جان کی امان پائیں تو بتاتےچلیں لاہورکاسب سےپہلا بازارحسن یہیں آبادہوا۔ بہت بعدمیں جب شہرپھیلا اور قلعہ نےآب وتاب دکھائی تواس فن اوراس سےجڑےفسوں کوزندہ رکھنےوالیاں شہرکےدارالسلطنت کےعین نیچےٹبی بازارمیں آبراجمان ہوئیں ۔ٹبی بازار جس میں ٹکسالی دروازے سے آتی بازارشیخوپوریاں کی راہ لیتی گزرگاہ کھلتی ہے اورجس کا حالیہ نام شاہی محلہ ابھی دھندلا نہیں پڑا۔ یہیں ہماری ملاقا ت ایک اور چوک چکلے سے ہوتی ہے۔ اپنے پڑھنے والوں کو یہ چوک دکھلاتے ہیں مگرپہلےذرا ایک چکردروازے کا لگا آئیں۔
کمال یہ ہوا کہ ہمارے آرٹسٹ ولیم سمپسن نے اوپربیان کیے گئے سکیچ میں کچھ بعد کی تاریخوں میں رنگ بھرے اور ہمیں ایک جاندارواٹرکلرعطاکیا۔ تو جیساکہ مہرچندکوثر نے کہاتھا
تصویر میں رنگ بھر رہے ہیں
ملنے کا ارادہ کر رہے ہیں
بالکل اسی طرح ٹکسالی دروازے کے ابھرتے ہوئے رنگ ہمیں بلاتے ہیں تو آئیے ملنے کا ارادہ کرتےہیں۔
شہرکی مغربی فصیل پرمورچہ بند یہ واحددروازہ ایک پیش بندی تھی ان حملہ آوروں کےخلاف جنہوں نے راوی کےپارسےآناتھا۔ پھرچشم فلک نےیہ منظر بھی دیکھا کہ آنےوالےپوربی دشا سےآئےجہاں سےکہ سورج طلوع ہوتاہےاورامرت کا تالاب چمکتاہے، ستلج پارکیااورتخت لاہورپرقابض ہوکرفتح بلائی، مگروہ قصہ پھر سہی
تو صاحب گیٹ کانام ٹکسالی کچھ یوں پڑاکہ شاہجہاں کےزمانےمیں یہاں ٹکسال قائم تھی جہاں مغلئی اشرفیاں ڈھالی جاتی تھیں۔ اگرآپ آج کی تاریخ میں جرنیلی سڑک پرواہگہ کےمسافرہوں توشالیمارباغ گزرتےہی روڈ کےمخالف یعنی جنوبی سمت پاکستان منٹ قائم ہے ۔ مغلئی اشرفیاں تو کب کی متروک ہوئیں اب حکومت پاکستان کرنسی نوٹ چھاپتی ہے۔ وہی خستہ کرارے اورایک مسحورکن خوشبو چھوڑتے ہوئےکرنسی نوٹ جسے بقو ل یوسفیؔ کسی ترکیب سےبمثل عطرکشیدکرکے مہینے کے شروع میں خواتین کو سنگھایا جائے تو بخدا گرہستی زندگی جنت کا نمونہ بن جائے ۔
لاہورکےنبض شناس سید لطیف بتاتےہیں شاہجہانی ٹکسال سے پہلے بھی یہاں ساہوکار، پیسہ بنانے اور پھر اس سےکھیلنےوالوں کی ریل پیل تھی۔ تب اسےلاکھی دروازہ کہتےتھے۔ لاکھی بمطلب لاکھ کی مُہر ۔ وائے زمانہ کہ کل کاٹکسالی گیٹ آج کی ایک منحنی سی گزرگاہ ہےجہاں گئے وقتوں کے شاندار دروازے کا نام ونشان تک نہیں۔اسی بے در کی گزرگاہ سے ایک پتلی گلی بنام لاہنگاسٹریٹ داہنےہاتھ کونکلتی ہےکچھ پرانےوقتوں کا سراغ دیتی ہوئی۔صاحب گانےوالیاں توہواہوئیں مگربجانےوالےکچھ کچھ یہیں رہ گئے۔ اب اس بازارمیں باجےوالوں کی بارات سجی ہے۔ ہارمونیم طبلہ پکھاوج شہنائی اوربہت کچھ، مگرشایدستارکی تاریں لینےاب بھی آپکوامبرسرجاناپڑے۔
اندرون ٹکسالی سےاگر آپ سیدھی روش پکڑیں(محاورےکی رعایت کےساتھ) توآپ بازارشیخوپوریاں سےہوتےہوئےجہاں اب چپلوں اورکھُسّوں کا بیوپارگرم ہےسیدھاناولٹی چوک پہنچتےہیں۔ یہ ٹبی بازارکاچوک چکلہ تھا۔ ہمارےپڑھنےوالوں کولوہاری گیٹ والا اصلی مارکہ چوک چکلہ یادہوگا جس کا ہم نے اوپرذکرکیاتھا ۔اس ٹبی بازارکے ناولٹی چوک میں ایک عرصےتک ناولٹی سنیما کےمیٹنی شوز نے ایک خلقت کوجوق در جوق اپنی طرف کھینچا اوررات کا شو ٹوٹنےپرپلٹتی بھیڑکاسواگت انہی سڑکوں نےکیا۔ اب نہ سنیما رہا نہ وہ لوگ۔ اسی چوک سےداہنےہاتھ تھوڑاآگے ایک غلام گردش کی اوٹ میں پاکستان ٹاکیزہے۔ کہنےوالےاسےوطن عزیزکےقدیم ترین سنیماگھروں میں سے بتاتے ہیں۔طرفہ تماشاہےکہ اب یہاں کمال ڈھٹائی سےبی گریڈسستی تفریح اور بےہودہ ادائیں نمائش کےلیےپیش ہوتی ہیں۔ بکنگ کلرک کی کھڑکی کے مارکے علاقےمیں لگے پوسٹرزپرنظرپڑی تو یوسفیؔ صاحب کی ترکیبیں ‘خنجراب چھاتیاں’ اور’اشرف المعلّقات کی نمائش’ بےطرح یادآئیں ۔ اور تخیل کا منہ زور گھوڑا جو یکبارگی ہنہنایا ہے تو کیا عضوِلطیف اور کیا عضوِکثیف ہمارا دھیان کہاں کہاں نہیں گیا۔
ٹھمکا گرا رے
ٹکسالی کے بازارمیں
ٹھمکا۔۔۔ ٹھمکا گرارے
(معاف کیجیے ہم اتنے لچے ہیں نہیں جتنا آپ سمجھ رہے ہیں )
بازارشیخوپوریاں جہاں ختم ہوتاہےجنوبی اترائی کےرخ ٹبی بازار کی رونقیں آپ کے ہمراہ چلتی ہیں۔ پپو پان شاپ سےہونٹ رنگین اورزبان ذائقےدارکرتےجائیے اورتھوڑا آگے ٹبی چوک سےسیدھےہاتھ مڑجائیے تو یہ گلی جج لطیف ہے۔ اگرآپ تاریخ کے طالبعلم ہیں تولاہورکے سید لطیف کو آپ کیونکرنہ جانتے ہوں گے ۔ لاہور کی متحرک نبض پرہاتھ رکھتا گئےقرنوں کوحال کےعدسےسےکھنگالتاان کی چھان پھٹک کرتاسید لطیف کاتالیف کردہ یہ مرقع جسےلوگ تاریخ لاہورکےنام سےجانتے ہیں اسی گلی کی لاہورپرعنایتوں میں سےایک عنایت ہے۔ ٹبی چوک سےنکلتی ان بھول بھلیّوں میں ایک عالم آبادتھا، اک علم کادریاتھا کہ بہتاتھا ۔ اہل علم ودانش کی فراوانی تھی کہ ادب کے قدردان اس قطعے کو لاہورکا چیلسی کہاکرتےتھے۔ایک طرف کوچہ تحصیل میں مولانامحمد حسین آزاد متمکن تھے ، جی ہاں وہی آب حیات والے اپنے مولاناآزاد ، تو دوسری طرف خواجہ برادران کا طوطی بولتا تھا ۔
یہیں کہیں قربت میں شاہ حسین نےدھونی رمائی تھی, دو نینن کی جوت جگائی تھی
نی سیو! اسیں نیناں دے آکھے لگے
اور پھر اسی تکیے پر بہت بعد کےسالوں میں پنجابی کی آن اور پنجابی کی شان استاددامن نےبیٹھک لگائی
بلھا ملیا ایسے وچوں
ایسے وچوں وارث وی
دھاراں ملیاں ایسے وچوں
میری ماں پنجابی اے
دیکھیے شام ہو چلی ہےتو صبح کےبھولےہم واپس اس دشا کوپلٹتے ہیں جہاں سےاس یاتراکاآغاز کیاتھا مگرذری رستےمیں شاہی محلےکی خوردنی سوغاتوں پرنظرڈالتے چلیں۔ بونگ پائے چنے پیڑے والی لسّی آپ نام اور چٹخارےلیتے جائیے۔ نوگزےپیرکےبالمقابل المشہورپھجےکےپائےکی قدیمی دکان ہے۔اپنےاصلی ہونے کےثبوت میں مالکوں نےمیاں برادران کی گاہکی کی تصویر لٹکا رکھی ہے۔ صاحب لاہورکی گلیوں سے سیاست کے ایوانوں تک ، پھجے کے پایوں کی پہنچ دوررس ہے۔ اور دل کی بات بتائیں تو یہ پھجے کے پائے ہی ہیں جو وطن عزیزمیں جاری حالیہ سیاسی خلفشار کی جڑ ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کیسے تو ہم دست بستہ عرض کریں گے کہ یہی پھجے کےپائے ایک قطری خط میں لپٹے تو گلی گلی’مجھےکیوں نکالا‘ کی صداؤں میں بےتوقیرہوئے۔ یہ گردان وطن عزیزکادردرکھنےوالوں کی سماعتوں پہ گراں گزری تواہل ادارہ ودانش نےاسکا علاج معجون فلک سیرکی ایک صوفیانہ خوراک سےکردیاتوہم ایک دوسرےگرداب میں پھنس گئے۔ مخے ’میں این آراو نہیں دوں گا‘ ۔ یہاں علامہ ناصرمدنی آپ سے کہیں گے
مجھ ویچ کےگھوڑی لئی
دُدھ پینوں گئی لِد سُٹنی پئی
دیکھیں ہم جذبات کی رو میں بہہ کرسیاست کی دلدل میں اتر گئے۔ اس میدان کے ہم کھلاڑی نہیں ہمیں ن لیگ کھلائےیا پی ٹی آئی ہم نےآخرمیں اون گول ہی کردیناہےتو بہتر ہےکہ واپس ٹکسالی کی ان گلیوں کو پلٹا جائے ۔
اونچا اور نیچا چیت رام روڈ کی یہ رنگین حویلیاں جوکبھی دیدہ زیبی میں شاہی محلے کے سر کا تاج تھیں آج بھی گئے دنوں کی چمک دمک رکھتی ہیں اوراسی شاہی مسجد کی ہمسائیگی میں اب فوڈ سٹریٹ کا حصہ ہیں۔ اگر آپ نے اندرون لاہورکی دید ہ زیبی کا نظارہ کرنا ہے تو یہاں آجائیے۔ ہم اپنے پڑھنے والوں کو خبردارکرتے چلیں کہ اگران کے آنے کا منبع و مقصد ‘صاف چھپتا بھی نہیں سامنے آتا بھی نہیں’ والا معاملہ ہے تو اطلاعاًعرض ہے کہ انہیں مایوسی ہوگی۔ وہ کیا ہے کہ
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے