منڈی صادق گنج جنکشن
یہ بہت پہلے کا ذکرنہیں ہے
کچھ دہائیوں کا قصہ ہے
آزادی سے پہلے جب سڑکیں اورپٹڑیاں بلا روک ٹوک چلتی چلی جایا کرتی تھیں توان زمانوں میں آپ کراچی سے تھرو ٹرین پکڑکے کلکتے کے ریلوے اسٹیشن پراتر سکتے تھے
بہاولپورسے ایک شاخ بہاولنگرسےہوتی ہوئی ہمارے ماضی کے مسافرکومنڈی صادق گنج لے آتی تھی ۔ گزرے وقتوں کے اس جنکشن سے ایک لائن توشمال مشرق میں امروکہ کے راستے فاضلکا چلی جاتی تھی جبکہ ایک دوسرا راستہ مشرق کا رخ کرتا اور ہندومالکوٹ اور ابوھرسے ہوتا ہوا ماضی اور حال کے یکساں مصروف ترین جنکشن بٹھنڈہ پہنچ جاتا اور پھر وہاں سے
کارِجہاں دراز ہے ۔ ۔
میں جوحال کا زائرتھا تو میرا استقبال منڈی صادق گنج کے بھوت نے کیا ۔ ایک زمانے میں اس سٹیشن کی مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ سٹیم انجنوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے یہاں دو واٹرٹینک تھے ۔ اب یہاں کوئی گاڑی نہیں آتی ۔ آخری ٹرین جویہاں آئی یا یہاں سے چلی تھی اس کا بھی کوئی درج شدہ رکارڈ سٹیشن پرنہیں ملا۔ سٹیشن کی عمارت جسکے ماتھے پر 1892 درج تھا کچھ بہترحالت میں ہے ۔ باقی جوہے وہ بربادی کا فسانہ ہے۔
سٹیشن کے ویٹنگ روم کی چابیوں کا کہیں سے انتظام ہوگیا توایک نادر چیز دیکھنےکو ملی ۔ مہمان خانے کے فرش پراپنی طرزکا منفرد رنگین ٹائلوں کا کام اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس طرزکا فرش منڈی صادق گنج کے علاوہ صرف ایک اور جگہ محفوظ ہے، خانیوال جنکشن کا ویٹنگ روم ۔
سفرکی ایک سہانی صبح انڈیا پاکستان کے بارڈرکی قربت میں منڈی صادق گنج ریلوے سٹیشن کے ویٹنگ روم کی آرام کرسی پر دراز میں نے کچھ دیرکے لیے جو آنکھیں بند کیں تو کیا کیا منظرنظرسے گزرگئے۔ انتظارگاہ کا فرنیچر، آنے والی گاڑی کا انتظار، ریلوے سٹیشن کی بھیڑ، اپنے ممکنہ ہم سفروں کی کہانیاں ۔۔۔
کسی انجان کمپارٹمنٹ میں لحاف سے جھانکتے وہ حسین پاؤں اور سہاگ پور کا وہ سٹیشن
“معاف کیجیے گا آپکے پاؤں دیکھے بہت حسین ہیں ۔ انہیں زمین پرمت اتارئیے گا میلے ہوجائیں گے”

یادوں نے کچھ اور یلغارکی تو اس ہجوم سے کچھ اور زادِ راہ نکلا، راجکمار اور مینا کماری کے مکالمے، کمال امروہوی کا کمال، موسیقارغلام محمد کا طلسم اور لتا منگیشکرکا جادو
اوران سب کے بیچ میں ایک الوداعی چیخ کی مانند ایک ہونکتے بھاپ زدہ انجن کی بین کرتی سیٹی ۔ ۔ کو ۔ ۔ ۔ کوکوووو
چلتے چلتے
یونہی کوئی مل گیا تھا
سرِراہ چلتے چلتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔