A short story from Minchinabad
In pre-partition Bahawalnagar Nagar Mal & Bhajan Lal were merchants of good standing and wealth. In 1930, as a befitting disposal of their moneys they hired an architect to build their show-mansion.
‘Mahal Nagar Mal’ was built by a local mistri or European arhitect we don’t know. What we do know is the craftsmanship par excellence that beautifully combined the Vernacular and European tradition. The mansion displays an exquisite fusion of Mughal and Italian architecture.
A row of outer guest rooms opens into a courtyard that through a flight of stairs meets a marble doorway. Krishna playing a flute greets you on each side of spandrel. Lower storey showcases Mughal style arches and floral motifs. First floor architecture is predominantly Italian.
Agarwal brothers had to migrate on partition and Sukheras became the new allottees. Ornate brick and plaster work on the entrance introduces the edifice as Sukheryan di Haveli. Mr Dilshad Sukhera was my host that afternoon in an edifice that is now crumbling.
This story comes to us from my guru* Salman Rashid and my visit was inspired by the blogpost for which my readers will find here.
*I unilaterally proclaim Salman sahab as my guru, a gurudakhshna is still due on me.
مختصرمختصر
منچن آباد کے دریچوں سے
تقسیم سے پہلے کے بہاولنگرکا ذکرہے، ناگرمل اوربھجن لال دوبھائی تھے، سوداگران وآڑھتیان جن کاتعلق نامی گرامی اگروال خاندان سے تھا اور پیسےکی ریل پیل تھی
ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ رقم انہیں اپنے والد سے ترکے میں ملی
اس بات سے قطع نظرکہ رقم کہاں سے آئی، اگروال برادرزنے اسےخرچ کرنے کے لیے منچن آباد کا انتخاب کیا
اوردولت کی نمائش کے لیے ایک پرتعیش حویلی نما گھرسے بہترکیا ہوسکتا تھا، مگربات صرف نمود ونمائش کی نہیں تھی یہاں جمالیاتی ذوق کا بھی سوال تھا
افسوس کہ تاریخ کے دھندلے اوراق ہمیں اس کاریگرسے متعارف نہیں کرواتےجس کا یہ شاہکارہے
اب یہ مقامی معمارکی کرشمہ سازی ہے یا یورپین مستری کے ہاتھ یہ ہم نہیں جانتے، مگرکل کا محل ناگرمل اورآج کی سکھیریاں دی حویلی منچن آباد کے ماتھے کا وہ جھومرہے جسمیں دونوں رنگ نمایاں ہیں ۔ روایتی طرزتعمیرکی جھلک بھی ہے اور ولایتی خاص کراطالوی عمارت سازی بھی
عمارت میں داخل ہوتے ہی بیرونی دورویہ مہمان خانوں کی قطار سےآپ کا تعارف ہوتا ہے جن کے بعد آپ دالان سے گزرتے ہوئے ایک سنگ مرمرکی محراب سے جا ٹکراتے ہیں جس کے دونوں اطراف نٹ کھٹ کرشن بنسی سنبھالے کئی سالوں سے اسی آسن میں محو ہیں ۔ ایک طلسم ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں ، سنگ مرمربےجان سہی مگردورکہیں سے بانسری کی آوازآتی ہے
دورکوئی گائے، دھن یہ سنائے
تیرے بن چھلیا رے، باجےنہ مرلیا رے
اگروال برادرزنےکب سوچا ہوگا کی حویلی کی چندبہاریں دیکھتے ہی انہیں کوچ کرنا پڑجائے گا ۔ تقسیم کے وقت دونوں بھائی ہندوستان ہجرت کرگئے بارڈرپارسےآئے سکھیرا مہاجراس حویلی کےنئےمکین ٹھہرے۔ آج بھی حویلی کےماتھےپر خوبصورت کٹ ورک سے میاں باغ علی سکھیراکندہ ہے منچن آباد کی اس روشن دوپہرحویلی کے موجودہ مالک دلشاد سکھیرا صاحب میرے میزبان تھے۔ وقت گزرنےکےساتھ حویلی کے رنگ پھیکے پڑگئے ہیں ۔ اتنی بڑی عمارت کی نگہداشت کافی وقت، محنت اوروسائل مانگتی ہے۔ حویلی کے جس حصے میں سکھیرا صاحب کی رہائش ہے اور جو علاقے زیراستعمال ہیں ان کی دیکھ ریکھ اور نگہداشت حویلی کے مکینوں کی اس تاریخی ورثے سے محبت کی عکاس ہے