ماڈل ٹاؤن لاہورکے جی بلاک کےقبرستان میں جہاں اشفاق احمد اوربانوقدسیہ آسودۂ خاک ہیں وہیں ایک کونے میں فیضؔ اورایلس فیض پہلوبہ پہلوسورہےہیں
پرانی بات ہےجب میں یہاں فاتحہ پڑھنےآیاتھا۔ بانوآپانےابھی اشفاق احمدکےپاس جاناتھا (اوراسی دن ان سے ۱۲۱سی داستان سرائے میں ملاقات ہوئی تھیمگروہ ایک الگ قصہ ہے)
فیضؔ سےیہ پہلی اورواحدملاقات تھی۔ کلامِ فیضؔ سےہماراپہلاتعارف توایک اورصدی کاقصہ ہے

نسخہ ہائےوفاکامصوّرایڈیشن وہ پہلی تحریک تھی جب فیضؔ کےکلام کوایک یکسوئی اورچاہت سے دیکھا، پرکھااوراس کی محبت میں گرفتارہوئے
بارہویں کےامتحان دے لینےکےبعد وہ جوایک عمرکی فراغت ملتی ہےتواس میں فیضؔ کی کچھ غزلوں اورنظموں کوخوشخط لکھا بھی ۔ نسخہ ہائےوفاسے یہ انتخاب میرااپناقلمی نسخہ تھا

یہ ۱۹۹۴کےلکھےہوئےکاغذکےپرزےکچی جلد میں کافی پائیدارثابت ہوئےکہ آج بھی انہیں نکالوں توماضی اپنی تمام تررعنائیوں کےساتھ جلوہ گرہوجاتاہے
مجھےیادہےجب یہ لکھےجارہےتھےتوایک قلمی نشست میں امی نےتھوڑےتفتیشی اورتھوڑےفرمائشی تجسس سےفیضؔ سےاقتباس کچھ شعرسن کرکہاتھا : وےمنڈیا، توں کوئی کم دی شےکیوں نئیں پڑھدا

کاغذکے رنگ کچھ کچھ پھیکےپڑنےلگےہیں مگرصاحب کیاغزل اورکیانظم دونوں میں وہی تازگی، وہی دلآویزی، وہی فیضؔ کابےنیازانہ رنگ
وہی خوابیدہ سی آنکھیں وہی کاجل کی لکیر
رنگ رخسار پہ ہلکا سا وہ غازے کا غبار
گردِایام سےان اوراق کونکالاتووہی معاملہ ہوا
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
………


یادوں کی انگلی تھام کےچلا توکشاں کشاں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہورکے سپورٹس کمپلیکس کاوہ کارڈبورڈ کی دیواروں والا کمرہ آگیاجہاں شاہدنےپہلےپہل اقبال بانوکی آوازمیں فیضؔ کی دشتِ تنہائی میں اےجانِ جہاں لرزاں ہیں سنوائی تھی
اس ایک فیصلہ کن لمحے میں یونیورسٹی میں نشست وبرخاست اورحلقۂ یاراں کےتمام مرحلےکمال خوش اسلوبی سے طےپاگئےتھے ۔ ناصرکاظمی کےالفاظ میں یہ فیض احمدفیضؔ کااعجازتھا کہ
دوستوں کےدرمیاں وجہِ دوستی ہے تو
وہ ۹۵ الیکٹریکل کے نان تھیٹوں کا گروپ تھا، شاہد،غضنفر،عسکری اورناصر۔ یونیورسٹی کی ہوسٹل لائف کارومانوی دور۔ فیض کوپڑھنے سے زیادہ سنانے کا مزہ آتا تھا
گھوڑےشاہ اورکاپرسٹورکی شامیں اورتحت اللفظ میں فیضؔ کی رقیب سے
بہت بعدمیں سیالکوٹ کی قربت میں ایک نیم لفٹین عمران اور(اس وقت کے) کپتان ظلِّ حسنین کو موقع ملاتوآفیسرزمیس کے ایک کمرے کی دیوارپردیوارِگریہ نے دوسراجنم لیا۔ انقلاب کی سرحدوں کےپارایک فوجی جنم
ریاست ہائےمتحدہ اگوکی کے ماڈل ٹاؤن کےقلب میں اکلوتی آرٹلری رجمنٹ کے بی او کیوز کے ایک کمرےمیں ایک دیوارِگریہ اوراسکی چھاؤں میں گونجتی نورجہاں کی آواز
مجھ سے پہلی سی محبت میرےمحبوب نہ مانگ
منظرایک اورکروٹ بدلتا ہے
چکلالہ گریسی لائن کی فراغت میں ایک ریٹائرمنٹ کی کسلمندی اوراس کے بیچ اتوارکی ایک صبح فیضؔ کے نام
The Red Baron Brigade at CityFM89
انتساب
زرد پتوں کابن جومرادیس ہے
دردکی انجمن جومرادیس ہے
فیضؔ پرلکھنےوالوں نے بہت لکھا اور کہنےوالوں نے بہت کہا
میرے صاحب اوردنیا کے باباصاحبا اشفاق احمد نے فیض کی کتاب شام شہریاراں کے دیباچےمیں فیضؔ کوملامتی صوفی لکھا ہے
واہ باباٹل واہ، چوری کرتےبھن گھررب دا، اوس ٹھگاں دےٹھگ نوں ٹھگ

اوراگرآپ فیض احمدفیضؔ پرہمارے آپ کے ہردلعزیزمشتاق احمدیوسفیؔ کی اس نشست سے مستفید نہیں ہوئے توصاحب بہت کچھ دیکھنا اورسننا باقی رہ گیا